ایک شخص نے کوئی قسم اٹھا لی کہ میں ایسی عبادت کروں گا جو دنیا میں کوئی بھی نہ کر رہا ہو، اب جب بات پوری ہو گئی تو اسے سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا کروں؟

ایک شخص نے کوئی قسم اٹھا لی کہ میں ایسی عبادت کروں گا جو دنیا میں کوئی بھی نہ کر رہا ہو، اب جب بات پوری ہو گئی تو اسے سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا کروں؟

بی کیونیوز! ایک شخص نے کوئی قسم اٹھا لی کہ میں ایسی عبادت کروں گا جو دنیا میں کوئی بھی نہ کر رہا ہو، اب جب بات پوری ہو گئی تو اسے سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا کروں؟ تو وہ بالآخر امام اعظمؒ کے پاس آیا کہ حضرت میں نے تو ایسی قسم اٹھا لی تھی کیا کروں؟ فرماتے لگے کہ تم جاؤ اور حرم میں جا کر لوگوں کو منت کرنا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے رک جائیں اور تم اکیلے طواف کر لینا، جب

تم طواف کر رہے ہو گے تو اس وقت دنیا میں کوئی بھی یہ عبادت نہیں کررہا ہو گا، یہ ایسی عبادت ہے کہ گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ دنیا میں یہ عبادت اور کہیں نہیں ہو رہی، یہ عبادت یہیں ہوتی ہے۔ حج میں اکابر کا ذوق عبادت(1)۔ حضرت قاری رحیم بخش پانی پتیؒ عمرے کے لیے تشریف لے گئے تو کچھ دن مکہ مکرمہ میں قیام رہا، فرماتے ہیں کہ جتنے دن مکہ مکرمہ میں قیام رہا، میں نے ہر نماز تکبیر اولی کے ساتھ پہلی صف میں امام کے پیچھے ادا کی۔ ہمیں ایک نماز بھی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ پہلی صف تک جانا ہی اتنا مشکل ہے۔(2)۔ علامہ زمخشریؒ جنہوں نے تفسیر کشاف لکھی، وہ جب حرم شریف کی زیارت کے لیے گئے تو بیت اللہ شریف میں ان کا اتنا وقت گزرتا اتنا گزرتا کہ عرب لوگوں نے ان کا نام جاراللہ، اللہ کا پڑوسی رکھ دیا، کتنا وقت مسجد

میں گزارتے ہوں گے کہ لوگوں نے ان کو جاراللہ کہنا شروع کر دیا۔(3)۔ ہمارے حضرت مرشد عالمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بیت اللہ شریف کے سامنے مطاف میں بیٹھ کر پورے قرآن پاک کی تلاوت اس طرح کی کہ ایک آیت پڑھنا اور اگر وہ خوشخبری والی آیت تو جنت کی دعا مانگتا اور اگر وعید کی آیت ہے تو ج-ہ-ن-م سے پناہ مانگتا، ایک ایک آیت پر دعا مانگتے مانگتے میں نے الف لام میم سے لے کر کروالناس تک پورا قرآن شریف بیت اللہ کے سامنے پڑھا۔ پلکوں کے بل اللہ کے گھر کی حاضری ابراہیم بن ادھمؒ نے بلخ سے عمرہ کے لیے حاضر ہونے کا ارادہ کیا، چنانچہ جب وہ سفر پر نکلے تو عجیب بات کہ ایک قدم اٹھاتے اور مصلیٰ بچھاکر دو رکعت نفل پڑھتے، پھر اگلے قدم پر مصلیٰ بچھاتے پھر دو رکعت نفل پڑھتے، ہر ہر قدم پر دو دو رکعت

نفل پڑھتے پڑھتے چودہ سال کے عرصہ میں وہ یہاں پہنچے، طواف کے بعد مقام ابراہیم پر آ کردو رکعت نفل پڑھی اور دعا مانگی کہ اللہ لوگ پاؤں سے چل کر تیرے گھرکی طرف آتے ہیں، میں تو پلکوں کے بل چل کرتیرے گھرکی طرف آیا ہوں۔ اللہ اکبر۔ ان کے دلوں میں اللہ کی کیسی محبت ہو گی جو پلکوں کے بل چل کر اللہ کے گھر پہنچے، جس نے ہر قدم پر سجدے کئے ہوں وہ تو پلکوں کے بل ہی چل کر یہاں پہنچا۔ خواجہ سراج الدینؒ کا احترام مکہ حضرت خواجہ سراج الدینؒ ہمارے سلسلۂ عالیہ کے بڑے بزرگ ہیں، بڑے عالم تھے اور بڑے بڑے علماء کے شیخ تھے، وہ حج کے لیے تشریف لائے تو تیرہ دن مکہ مکرمہ میں رہے، یہ ان کی کرامت تھی کہ کچھ کھایا نہ پایا اور نہ پیشاب نہ پاخانہ، تیرہ دن اسی طرح عبادت میں گزارے اور تیرہ دن کے بعد چلے گئے، کسی نے

پوچھا کہ کھاتے پیتے کیوں نہیں، تو فرمایا کہ اگر میں کھاؤں گا تو قضائے حاجت کی بھی ضرورت پڑے گی اور میں پسند نہیں کرتا کہ میں کالا کت اس پاک دیس کو ناپاک کر جاؤں، اس زمانہ میں بیت الخلاء بھی ایسے ہوتے تھے کہ فلش سسٹم نہیں ہوتا تھا، یہ ان کی کرامت تھی کہ اتنے دن اللہ نے ان کو بغیر کھائے پئے طاقت دے دی اور وہ اعمال کرتے رہے تو دیکھیں کون کتنی چاہت اور محبت کے ساتھ آتا ہے۔

Leave a Comment