استغفارمیں دنیاوآخرت کےبے شمارفوائد ہیں، پڑھیئےقرآن پاک کی روشنی میں انبیاءکرام نےاپنی قوموں کواستغفارکےبارےمیں کیاکہا؟

استغفارمیں دنیاوآخرت کےبے شمارفوائد ہیں، پڑھیئےقرآن پاک کی روشنی میں انبیاءکرام نےاپنی قوموں کواستغفارکےبارےمیں کیاکہا؟

بی کیو نیوز! استغفارمیں دنیاوآخرت کےبے شمارفوائد ہیں، پڑھیئےقرآن پاک کی روشنی میں انبیاءکرام نےاپنی قوموں کواستغفارکےبارےمیں کیاکہا؟ استغفار کرنے اور کرتے رہنے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے. اس لئے یہ فرض اور واجب ہے. استغفار کے معنی ’’مغفرت مانگنا‘‘ ہے. اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے کہ ’’یااللہ! میرے گ-ن-اہ-و-ں کو معاف فرما، اپنے عفو و کرم سے سرفراز فرما، مجھے

اپنے دامن رحمت میں چھپالے.‘‘ اس کے ساتھ اللہ تعالی نے کوئی شرط نہیں رکھی. چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت استغفار کیا جاسکتا ہے. اگر اس کی عادت ہو جائے تو ان شاء اللہ تعالی رذائل خود بخود ختم ہو جائیں گے اور تقویٰ کا مزاج پیدا ہو جائے گا. اللہ تعالی کی صحیح عبادت کا جذبہ نصیب ہوگا اور اس کی برکت سے گ-ن-ا-ہ-و-ں کا ارتکاب دشوار اور نیکیوں کا صدور آسان ہو جائے گا۔ قرآن مجید میں استغفار کے حکم کے ساتھ اس کے جو فوائد بتائے گئے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں ’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ کر آؤ تو وہ ایک خاص مدت تک (دنیاوی زندگی میں) تم کو اچھا سامان حیات دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا.‘‘ (سورۂ ھود) مطلب یہ ہے کہ تم کو دنیا میں اچھی طرح رکھا جائے گا. اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی. تمہیں برکتوں سے

نوازا جائے گا۔ خوشحالی اور فارغ البالی تم کو حاصل رہے گی۔ زندگی میں امن و چین نصیب ہوگا۔ دنیا میں عزت و آبرو کے ساتھ رہو گے اور جو شخص بھی اپنے کردار و عمل سے خود کو کسی فضیلت کا مستحق ثابت کرے گا۔ وہ فضیلت اس کو ضرور عطا کی جائے گی۔ یہ سارے فوائد استغفار اور رجوع الی اللہ کے ہیں۔ حضرت ھود علیہ السلام نے کہا: ’’اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو (استغفار کرو) اس کی طرف پلٹ آؤ، تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تم کو مزید قوت عطا کرے گا‘‘ (سورہ ھود۔۵۲) موسلا دھار بارش، رزق فراواں اور فضل و کرم سے کنایہ ہے۔ بندہ جب استغفار کرتا ہے تو اس پر برکات اور انعام و اکرام کی بارش کردی جاتی ہے۔ آسمان پر اس کے لئے فضل و کرم کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ رزق حلال اور پاکیزہ رزق سے اس کی کفالت کی جاتی ہے۔ سکون کی نعمت اور

اطمینان قلب کی دولت سے اس کو مالا مال کردیا جاتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ’’اے سے (یعنی اللہ تعالی سے) گن-ا-ہ-وں- کی معافی چاہو، پھر اس کی طرف رجوع کرو، یقین رکھو کہ میرا رب قریب بھی ہے اور دعائیں قبول کرنے والا بھی‘‘ (سورۂ ھود۔۶۱) حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا: ’’اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقین رکھو میرا رب بڑا مہربان اور محبت کرنے والا ہے‘‘ (سورۂ ھود۔۹۰) پھر اسی گروہ انبیاء میں حضرت نوح علیہ السلام کی آواز گونجتی ہے کہ ’’اپنے پروردگار سے استغفار کرو،یقین جانو وہ بہت بخشنے والا ہے‘‘ (سورۂ نوح۔۱۰) اور پھر خود اللہ تعالی نے اعلان فرمادیا کہ ’’اللہ سے مغفرت مانگو، اللہ بڑا غفور رحیم ہے‘‘۔ (سورۂ مزمل۔۲۰)استغفار کا ایک اہم ترین فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے بندوں پر اللہ تعالی کا عام ع-ذ-اب نہیں آتا۔ چنانچہ

ارشاد باری تعالی ہے ’’اللہ ایسا نہیں ہے کہ (اے رسول) تمہاری موجودگی میں ان کو ع-ذ-اب دے اور اللہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کو ایسی حالت میں ع-ذا-ب دے جب کہ وہ استغفار کر رہے ہوں‘‘ (سورہ انفال۔۳۳) اس آیت کریمہ میں -ذا-ب عام سے تحفظ کے دو اسباب یا ع-ذا-ب عام کے دو موانع بیان کئے گئے ہیں، ایک رسول کی موجودگی اور دوسرا استغفار۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور اللہ تعالی کا اصولی فیصلہ ہے کہ رسول کی موجودگی میں کسی قوم پر عام ع-ذا-ب نہیں آتا۔ سابق انبیاء کرام کی قوموں پر آنے والا عام ع-ذ-اب نبی کی موجودگی میں نہیں آیا۔ ن-و-ح علیہ السلام، ل-و–ط علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام کی قوموں پر آنے والے ع-ذ-اب اس وقت آئے، جب یہ انبیاء کرام ان میں موجود نہیں تھے۔ جب کسی قوم پر رسول کی موجودگی میں ع-ذ-اب نہیں آتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت اللعالمین ہیں، آپﷺ کی موجودگی ع-ذ-اب عام سے

مانع کس طرح نہ ہوگی۔ ع-ذ-اب عام سے تحفظ کا دوسرا سبب اس آیت کریمہ میں ’’استغفار‘‘ بتایا گیا ہے۔ اگر لوگ استغفار کر رہے ہیں تو اس کی یہ کتنی بڑی برکت ہے کہ وہ اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہتے ہیں۔قرآن کریم میں متقین کا ایک خاص وصف یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’وہ سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں‘‘ (سورہ ذاریات۔۱۸) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اگر تم میں سے کسی کے گ-ن-اہ زیادہ ہو جائیں تو وہ سحر کے وقت یعنی فجر سے پہلے استغفار کرے۔ یہ گ-ن-اہ-و-ں کاک-ف-ا-ر-ہ- ہے۔ سحر کے وقت کا استغفار دین و دنیا دونوں کے فوائد کے حصول کے لئے بڑا مؤثر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنے نیک اور پرہیزگار بندوں کے جو اوصاف بتائے ہیں، ان میں ایک اہم وصف سحر کے وقت استغفار بھی ہے، یعنی ’’وہ سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران۔۱۷)کشادگی رزق، خوشحال

اور فارغ البالی کے لئے سحر کے وقت کا استغفار بڑی تاثیر رکھتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’سحر کے وقت (یعنی وقت فجر سے پہلے) ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم، استغفراللّٰہ‘‘ سو (۱۰۰) مرتبہ یعنی ایک تسبیح اگر پڑھتے رہو تو تمہارے پاس دنیا ذلیل ہوکر آئے گی‘‘۔ استغفار آخرت کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ دنیا کے لئے بھی نسخہ کیمیا ہے، یعنی استغفار دو دھ-ری ت-ل-و-ا-ر ہے، اس سے صرف آخرت کا ع-ذا-ب ہی نہیں، بلکہ دنیا کی تکلیفیں اور مصیبتیں بھی کٹ جاتی ہیں، اس سے دنیا کے دلدَّر بھی دور ہو جاتے ہیں۔ استغفار باعث رحمت بھی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’تم استغفار کیوں نہیں کرتے؟ (کرو) تاکہ تم پر ہماری رحمتیں نازل ہوں‘‘ (سورۂ نمل۔۴۶) استغفار، رحمتوں کے خزانے کی کنجی ہے، لہذا اس کو نظرانداز کرنا یا اس سے غفلت برتنا بہت بڑی کم نصیبی ہے۔ (اقتباس) اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Leave a Comment