حجرِ اسود کی فضیلت اور تاریخ کیا ہے؟

حجرِ اسود کی فضیلت اور تاریخ کیا ہے؟

بی کیونیوز! حجرِ اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا۔ ط-و-فا-نِ- ن-و-ح علیہ السلام میں آدم علیہ السلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اُٹھائے جانے کے وقت اس متبرک پتھر کو شکمِ جبلِ ابی قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا، پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبرئیل علیہ السلام نے

اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی خدمتِ عالیہ میں پیش کردیا تھا، اس طرح اُسے پھر اسی جگہ کی زینت بنادیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔ (تفسیر قرطبی) اس کے فضائل اور اوصاف میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ طواف کی ابتدا حجرِ اسود کے استلام سے ہوتی ہے، یہ جنت کا پتھر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے گ-ن-ا-ہ جذب کرنے کی عجیب تاثیر رکھی ہے، چناںچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نَزَلَ الْحَجْرُ الأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةوَهواَشَدُّ بَیَاضاً مِنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْهخَطَایَا بَنِيْاٰدَمَ‘‘. ترجمہ: جس وقت حجر اسود جنت سے اترا تو وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، پھر آدمیوں کے گ-ن-ا-ہ-و-ں نے اسے سیاہ کردیا۔ اور ترمذی شریف کی ایک

روایت میں ہے کہ ’’حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں دو یاقوت ہیں، اگر اللہ تعالیٰ ان کی روشنی کو ختم نہ فرماتے تو یہ پوری زمین وآسمان کو روشن کردیتے‘‘۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ حجرِ اسود ق-ی-ا-م-ت کے دن اپنے بوسہ لینے اور استلام کرنے والوں کے حق میں سفارش کرے گا اور اس دن اللہ تعالیٰ اس کو زبان اور ہونٹ عطا فرمائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’أَشْهِدُوْا هذا الْحَجَرَ خَیَراً؛ فَإِنَّهیَوْمَ الْقِیَامَةشَافِعٌ یَشْفَعُ، لَه لِسَانٌ وَشَفَتَانِ یَشْهدلِمَنْ اِسْتَلَمَه‘‘. ترجمہ: اس حجرِ اسود کو اپنے عملِ خیر کا گواہ بنالو؛ کیوںکہ ق-ی-ا-م-ت کے دن یہ سفارشی بن کر (اللہ کے دربار میں) اپنے استلام کرنے والوں کے لیےسفارش کرے گا، اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔ پیغمبر علیہ السلام سےحجرِ اسود کا بوسہ دیتے

وقت رقت وزاری بھی ثابت ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کی تقبیل واستلام کو گویاکہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کرنا قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مَنْ فَاوَضَه؛ فَاِنَّمَا یُفَاوِضُ یَدَ الرَّحْمٰنِ‘‘. ترجمہ: جو شخص حجرِ اسود کو ہاتھ لگائے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کررہا ہے۔ بریں بنا حجرِ اسود کی تقبیل/ استلام کا کمالِ استحضار کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے، بھیڑ کا موقع نہ ہو اور سہولت سے بوسہ لینا ممکن ہو تو قریب جاکر بوسہ لیں، اور اگر بھیڑ زیادہ ہو تو دور ہی سے استلام کرلیں، اس سے بھی بوسہ کے برابر ہی ثواب ملتا ہے۔ باقی حجرِ اسود کے رنگ سے متعلق احادیث میں جو وارد ہے اس کا بیان اوپر آ چکا ہےکہ بنی آدم کے گ-ن-ا-ہ-و-ں نے اس کا رنگ کالا کر دیا۔ لیکن ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی جس میں یہ صراحت ہو کہ حجرِ اسود کے رنگ کا کالا ہونا ق-ی-ا-م-ت کی نشانیوں میں سے ہے۔ فقط واللہ اعلم

Leave a Comment