بی کیونیوز! ایک این جی او کے تحت ”بڑھتی ہوئی آبا-دی کے مسا-ئل” پر کانفرنس کے سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ھوئے ایک عالم دین نے ”فیملی پلا-ننگ کے شرعی جو-از” کے دلائل فرھم کئے (عزل والی احادیث کی بنیاد پر)۔ ایک دوسرے صاحب نے تجدد پسندانہ افکار کو سپورٹ کرتے ھوئے فرمایا کہ اب روایت پسندانہ تشریحات سے علی الرغم بھی تفہیم نصوص پیش کی جاچکی ہے اور اس متبادل فکر کے
مطابق اس عمل میں کوئی ممانعت نہیں، خدا نے اس معاملے میں ہمیں اختیار و عقل دی ہے، ہمیں انہیں استعمال کرتے ہوئے اپنے حال پر رحم کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ شرکاء نے ملک کے بیشتر مسائل (مثلا بڑھتے ھوئے جرائم) کی اصل وجہ جاھ-ل و بڑھتی ھوئی آبادی کو قرار دیا، لٰہذا اسے کم کرنے پر زور دیا گیا۔ جدید نظم معاشرت و ریاست سے جن-م لینے والے ایسے بہت سے مسا-ئل ہیں جن کے اسلامی حل اور متبادل فراہم کرنے کی ذمہ داری یا تو عل-ماء کے کاندھوں پر ڈال دی جاتی ہے اور یا پھر چند جدید مفکرین خود ہی یہ بار گراں اپنے سر اٹھا لیتے ہیں۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ”آبادی کا مس-ئلہ” بچے زیادہ پی-دا ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوگیا ھے یا یہ نتیجہ ھے کسی دوسرے مس-ئلے کا؟ درحقیقت آبادی کا مس-ئلہ چند وجوھات کی بنا پر پیدا ھوا ھے: 1) انسانوں پر
ایک ایسے نظم اجتماعی (مارکیٹ و جمہ-وریت) اور (تنویری) علمی ڈسکورس کا مسلط ھوجانا جو نہ صرف انہیں اپنی ذات و اغراض سے منسلک ھوجانے کو عقل کا تقاضا بتاتے ھیں بلکہ اس جذبے کی آب-اری کیلئے سازگار ماحول بھی فراہم کرتے ھیں، اس ڈسکورس کے تحت یہ جدید انسان لغو اور ذل-یل ترین خواھ-شات (مثلا پرتعیش سامان زیست کی فراہمی، کھیل تماشوں و شک-ار کا فروغ، فنون لطیفہ کے نام پر فن مصوری، نا-چ گا-نے، مسخ-رہ پن و ادا-کاری، آلات موسی-قی اور بدک-ار خواتین کی انڈسٹریز کا فروغ وغیرہ) کی تسکین کو سسکتے ھوئے قریب ترین عزیز و اقارب کی مدد کے مقابلے میں اھم تر، جائز اور اپنا حق سمجھتا ھے اور یہ نظام اسکی ان خواھ-شات کی تکمیل کیلئے ہر قسم کی سہولیات فراھم کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ نظام ذرائع کے پھیلاؤ کو
لگاتار سکیٹرتا چلا جاتا ھے 2) دوسری اھم وجہ ایک ایسے سیاسی نظرئیے کے تحت دنیا کو قومی ریاستوں میں بانٹ دینا ھے جو انسانیت کو کسی ایک جگہ ذرائع کی کمی کے باوجود بھو-کوں مر-نے پر مجبور کرتا ھے، زمین کے کسی ایک حصے سے دوسرے حصے میں کسے جانے کی اجازت ہوگی اسکا فیصلہ بھی ‘سرمایہ ‘ کرتا ھے ایسے حالات میں اس جدید انسان کو دنیا میں پیدا ھونے والا بچہ ایک بوجھ دکھائی دیتا ھے جو اسکے رزق میں حصہ دار اور حر-یف ھے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ انسان نے اپنی ہی اولاد کو نظریہ نفع و نقصان کے مادی پیمانوں میں تولا ھو، اور طرفہ تما-شا یہ ھے کہ یہ سب ایک ایسے دور میں ہورہا ہے جب انسان نے اپنی ضرورت سے بہت زیادہ سامان زیست فراہم کرنے کے ذرائع بھی پیدا کرلئے ہیں۔ تو جو اھل علم ان ”جدید مسا-ئل” کا پس منظر
سامنے رکھے بغیر ہی انکے اسلامی حل فراہم کرنے میں مصروف ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا اسلام کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ ایک ظ-ا-لما-نہ اور با-طل نظم اجتماعی کے پیدا کردہ اور حر-ص و حس-د سے مغلوب جدید انسان کے مسا-ئل کو ”اسی کے اندر” حل کرنے کے طریقے تجویز کرے اور انکے جواز فراہم کرے؟ جدید ذھن کا مطالبہ یہ ھے کہ کہ جدید دنیا میں تمام تر فیصلے تو ایک ”ماورائے اسلام” علمی ڈسکورس کی بنیاد پر ہی کئے جائیں گے، البتہ اس سے جو مسا-ئل پیدا ھورہے ہیں اسلام یا تو اس جدید تناظر کے اندر رھتے ھوئے انکا حل پیش کرے اور یا پھر اس علمیت سے نکلنے والے مجوزہ حل کو جواز فراھم کرے، اگر اسلام یہ دونوں کام نہیں کررھا تو اسلام ناقابل عمل اور ناکام ھے۔ مگر کیا جدید اجتہاد کے نام پر ایسے مسا-ئل کے جو حل پیش کئے جارہے ہیں وہ فروغ اسلام کا پیش خیمہ بننے والے ہیں یا اسی نظم کی ”اسلامی خدمت” کرکے اسے مضبوط کرنے کے مترادف ہیں؟ اھل علم کو اس سوال پر خوب غور کرنا چاہئے.
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F10268%2F">logged in</a> to post a comment.