بی کیونیوز! کسی چیز کے وجود کو نہ ماننا اور کسی چیز کے وجود کا انکار کر ڈالنا۔ یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ ان کے محرکات بھی مختلف ہیں اور نتائج بھی۔ کسی چیز کو نہ ماننا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ آپ کی کم علمی کی دلیل ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ چیز موجود ہو مگر آپ کے علم میں نہ ہو ۔مگر کسی چیز کا انکار کر ڈالنا کم علمی کی دلیل نہیں بلکہ باقاعدہ ایک دعویٰ ہے۔ اس دعوے کے لئے
ثبوت درکار ہیں۔ علم درکار ہے۔ یہ دعویٰ اگر علم کے ساتھ کیا جائے تو قابلِ ستائش ہے اور اگر بغیر کسی علم کے کیا جائے تو اس سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں۔ سائنس ابھی تک اس بات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے کہ انسانی جسم کا وہ کون سا عضو ہے جس کے پیدا ہونے سے زندگی شروع ہوتی ہے اور جس کے ختم ہونے سے زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر میرے پاس ایک کمپیوٹر ہے۔ میں اس کا پلگ آن کرتا ہوں تو اس میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جیسے ہی میں پلگ آف کرتا ہوں تو زندگی دم توڑ دیتی ہے۔ اس کا ماخذ کرنٹ ہے جو اس میں زندگی کی لہر دوڑا رہا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ کچھ اعضاء کا تباہ ہو جانا فوری موت کا سبب بن جائے ۔ جیسے دل و دماغ ۔ مگر پھر ان کی موجودگی کے باوجود موت کا واقع ہو جانا سمجھ نہیں آتا ۔ یعنی اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ دماغ کی م-وت پورے
جسم کی م-وت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا دماغ ہی وہ عضو ہے جو زندگی کی لہر دوڑاتا ہے ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ صحیح الدماغ ہونے کے باوجود کیوں م-ر جاتے ہیں ؟یہی معاملہ باقی اعضاء کے ساتھ بھی ہے ۔سائنس اب تک م-وت کی حتمی وجہ کا تعین کرنے سے قاصر ہے۔ اسلام کے مطابق م-وت جسم سے روح نکل جانے کا نام ہے ۔ یہ عمل قلیل مدتی بھی ہو سکتا ہے اور طویل مدتی بھی ۔ قرآن ۔ سورہ الانعام ۔ آیت نمبر 60 وَهُوَ الَّذِىۡ يَتَوَفّٰٮکُمۡ بِالَّيۡلِ وَ يَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَـبۡعَثُکُمۡ فِيۡهِ لِيُقۡضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّىۚ ثُمَّ اِلَيۡهِ مَرۡجِعُکُمۡ ثُمَّ يُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۰﴾ اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ (یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی) معین مدت پوری کردی جائے پھر تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے ہو (ایک ایک کرکے) بتائے
گا ﴿۶۰﴾ سورہ الزمر ۔ آیت 42 اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الۡاَنۡفُسَ حِيۡنَ مَوۡتِهَا وَالَّتِىۡ لَمۡ تَمُتۡ فِىۡ مَنَامِهَا ۚ فَيُمۡسِکُ الَّتِىۡ قَضٰى عَلَيۡهَا الۡمَوۡتَ وَ يُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾ خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر م-وت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ﴿۴۲﴾ پھر جب تمام ارواح تخلیق کی گئیں تو ان سے توحید کا وعدہ لیا گیا ۔ سورۃ الاعراف ۔ آیت نمبر 172 وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ. ’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور
ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا : ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے : کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے، ) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ ق-ی-ا-م-ت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے۔‘‘ جس طرح روح کا انکار ممکن نہیں اس طرح روح کی صحیح توجیہ بھی ایک مشکل کام ہے ۔ للہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ سورہ بنی اس-ر-ا-ئ-یل ۔ آیت نمبر 85 وَيَسۡـــَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا ﴿۸۵﴾ اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے ﴿۸۵﴾ انسان کی سمجھ بوجھ کا ماخذ سائنس ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ہر علم سے واقف ہے ۔ سائنس ان میں سے صرف ایک چھوٹا سا علم ہے جو انسان کو دیا گیا ہے ۔ اس آیت سے ایسا لگتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ روح کے علم کا تعلق انسان کی محدود عقل سے بالاتر ہو
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F10385%2F">logged in</a> to post a comment.