اسلام میں ش-ر-ا-ب کی حیثیت

اسلام میں شراب کی حیثیت

بی کیونیوز! ایک عورت جسکا ایمان بہت مضبوط تھا۔ ابو بصیر ایک دفعہ امام جعفر الصادق کے ساتھ تھے تب وہاں ایک عورت آئی اور امام سے کہنے لگی، “میں ایک سوال کرنے آئی ہوں۔ میں بیمار ہوں اور عراق کے ایک ڈاکٹر نے مجھے ش-ر-ا-ب پینے  کو کہا ہے۔ اب میں جاننا چاہتی ہوں کہ ایسے حالات میں کیا کروں؟ امام نے اس سےکہا کہ جب آپ کو ڈاکٹروں نے کہا ہے تو وہ آپ کیوں نہیں پی لیتیں؟ اس عورت نے

جواب دیا کہ “چونکہ میں آپ کا پیروکار ہوں، میں آپ کی باتوں پر عمل کروں گی۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اسے پیوں گی۔ اگر نہیں، تو میں اس سے دور رہوں گی۔ لہذا اگر ق-ی-ام-ت کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ایسا کیوں کیا تو میں یہ جواب دوں گی کہ میں نے اس دن کے امام کی ہدایت پر عمل کیا تھا. امام جعفرنے ابو بصیر کی طرف رجوع کیا اور کہا کہ: “اے ابو بصیر۔ کیا آپ نے اس عورت کی باتیں سنی ہیں؟ کیا آپ اس کے ایمان سے متاثر نہیں ہیں؟ اپنی بیماری کے باوجود وہ امام کی اجازت کے بغیر ش-ر-ا-ب پینے سے گریزکررہی ہے۔ امام نے پھر اس عورت کی طرف متوجہ ہوکر کہا ، خدا کی قسم ، میں تمہیں ش-ر-ا-ب پینے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اگر آپ ایسا کرتی ہیں تو آپ کو افسوس ہوگا لیکن یہ نہیں لینی ہے حتی کہ اپ کی جان گلے

تک پہنچ جائے۔ تو امام نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور اس سے تین بار پوچھا کہ اگر وہ سمجھ گئی تو۔ اس عورت نے سر ہلایا۔ اسلام نےتما م چیزوں میں سے ایک چیز کو جن سے سختی سے منع کیا ہے وہ ش–ر-ا-ب ہے۔  جیسے ش-ر-ا-ب ن-و-ش-ی۔ یہ جسم اور دماغ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ ان کے اثر سےایک شخص اپنے ہوش کھو دیتا ہے اور وہ م-ج-ر-م-انہ کاروائی کر سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ ش-ر-ا-ب کی تجارت کرنا اور ش-ر-ا-ب خ-ا-ن-وں میں بیٹھنا، جہاں لوگ ش-ر-ا-ب پی رہے ہیں وہ بھی اسلام میں منع ہے قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اے ایمان والوں ش-ر-اب اور ج-و-ا اور ب-ت اور پا-ن-س-ے نا پاک ہی ہیں ش-ی-ط-انی کا م تو ان سے بچے رہنا کہ تم فلا ح پاؤ۔ ش-ی-ط-ان  یہی چاہتا ہے کہ تم میں بیر اور د-ش-م-ن-ی ڈالے

اور ش-ر-ا-ب اور ج-و-ئ-ے میں اور تمہیں الۤلہ کی یا د اور نما ز سے روکے (ف 221) تو کیا تم با ز آئے؟ باب 5، آیات 90، 91 قرآن مجید کی یہ آیات ہمیں ش-ر-ا-ب نو-شی کے اثرات سے مطلع کرتی ہیں۔ امام علی کا فرمان ہے کہ فرض کرواگرش-ر-اب کا ایک قطرہ کسی کنویں میں ڈال دیا جائے اور اس کے پانی سے زمین کو سیراب کیا جائے۔  اس کی لگی ہو ئی گھاس کو اگر کوئی بھیڑ چرتی ہے۔ پھروہ بھیڑ دوسری بھیڑوں کے ریوڑ میں  مل جاتی ہے جو کہیں اورسے  چر کے آئے ہیں۔ اگر تمام بھیڑوں کو ذ-ب-ح بھی کیا جائے اور اس بھیڑ کے گ-و-ش-ت کی شناخت کرنا مشکل ہوجا ئے گا۔ جس نے کنویں کے پانی سے سیراب ہوئی گھاس کھائی تھی تو میں اس گ-و-ش-ت میں سے کسی بھی چیز کو نہیں کھاؤں گا۔

Leave a Comment