بڑھیا نےمیرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں، آ تجھے پل صراط پار کرا دوں

بڑھیا نےمیرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں، آ تجھے پل صراط پار کرا دوں

بی کیونیوز! گھر میں داخل ہوا تو دیکھا، بیوی بیٹھی رو رہی ہے. کیا ہوا؟ میں نے پوچھا. یہ آنکھیں کیوں لال کر رکھیں ہیں. سب خیریت تو ہے نا! آج، اس کمینے نے، بیوی کے کہنے پہ اس بڑھیا کو پھر مارا ہے۔ وہ پھر ہچکیوں سے رونے لگی۔ تمہیں کیا۔ وہ اس کی ماں ہے، تمہاری نہیں اور پھر بڑھیا، زبان چلاتی ہو گی۔ بہو کے معاملات میں دخل دیتی ہوگی۔ میں نے اس کا غم غلط کرنے

کے لیے کہا۔ زبان چلاتی ہو گی؟ معاملات میں دخل دیتی ھوگی۔۔؟ آپ کو کچھ پتا بھی ھے، اس بیچاری کو فالج ھے۔ اٹھنے بیٹھنے کے لیے سہارے کی محتاج ھے۔ اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کرتی ھے۔ بیوی نے تلخی سے جواب دیا۔ پہلے تم نے کبھی بتایا نہیں کہ اس کو فالج ہے۔ میں نے انجان بنتے ھوۓ کہا۔ ہزار دفعہ تو بتایا ھے۔ مگر آپ کو کپڑوں کے علاوہ کچھ یاد رھے نا. بیوی بولی اچھا چھوڑو۔ ھم کر بھی کیا سکتے ھیں؟ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ میرا دل کرتا ہے کہ بڑھیا کو اپنے گھر لے آؤں کچھ دنوں کے لیے۔ میری بیوی نے کہا کیا۔ کیا کہا؟ پاگل ھو گئی ھو۔ پرائی مصیبت اپنے گلے ڈالو گی۔ مجھے اس کی سوچ پہ غصہ آگیا۔ صرف ھفتے بھر کے لیے۔ اس نے میرے غصے کو نظر انداز کرتے ھوۓ کہا۔ شاید وہ پہلے سے ہی سب پلان بنا کے

بیٹھی تھی۔ نہیں، نہیں۔ یہ ناممکن ھے۔ اور پھر وہ کیوں دینے لگا اپنی ماں ھم کو۔ میں نے کہا۔ اس کی بیوی کئی مرتبہ کہہ چکی ھے کہ بڑھیا، کہیں دفع تو ھو نہیں سکتی، کتے کی سی جان ھے، مرتی بھی نہیں۔ بیوی نے کہا اچھا، یہ کہتی ھے وہ۔ میں نے بیوی کا دل رکھنے کے لیے کہا۔ بس اب آپ مان جائیں اور اس کو اپنے گھر لے آئیں۔ یہ کہتی ھوۓ وہ میرے پہلو میں آ بیٹھی۔ اور یہی اس کا خ-ط-رنا-ک حملہ ھوتا ھے، اپنی بات منوانے کا۔ اچھا جی اب اس بڑھیا کو گھر لانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال رھی ھو۔ اور یہ تو سوچو کہ تم اس کوسنبھال بھی لو گی؟ میں نے کہا اپنے بچے تو ھیں نہیں، میں بھی گھر میں سواۓ ٹی وی دیکھنے کے اور کیا کرتی ھوں۔ چلو وہ آ جاۓ گی تو میرا دل بھی بہلا رھے گا۔ اس نے اداسی سے کہا ہماری شادی کو دس سال ھو گۓ تھے۔ مگر

اولاد سے محرومی تھی۔ میں نے سوچا- چلو بات کر کے دیکھنے میں حرج نہیں ھے ۔ کونسا، وہ اپنی ماں، ھمیں دینے پہ راضی ھو جاۓ گا۔ اگر راضی ھو گیا تو؟ میں نے سوچا پھر بھی ایک ہفتے کی ھی تو بات ھے. اگر بعد میں اپنے ہی گلے پڑ گئ تو۔ اچانک مجھے خیال آیا۔ اگر وہ بڑھیا مستقل گلے پڑ گئ تو۔ میں نے اپنے خدشے کا اظہار، بیوی سے کیا۔ یہ تو اور اچھی بات ھے۔ اس نے خوش ھوتے ھوۓ کہا۔ سچ کہتے ھیں۔ عورت بے وقوف ھوتی ھے۔ میں نے دل میں سوچا۔ اگلے دن شام کو کافی سوچ بچار کے بعد میں ان کے گھر گیا۔ کچھ بات کرنے کے بہانے، ڈرائنگ روم میں بیٹھا۔ اس نے جھوٹے مونہہ بھی چاۓ کا نہیں پوچھا تو میں نے اپنے پلان کے مطابق اس سے کہا کہ میری بیوی، فالج کا علاج قران پاک سے کرنا جانتی ہے۔ اور وہ آپکی والدہ کا علاج کرنا چاھتی ھے۔ یہ سن کر

اس نے کسی خوشی کا اظہار نہ کیا۔ تو میں نے بات جاری رکھی۔ کہ اس میں مسئلہ یہ ھے کہ آپ کی والدہ کو ھفتہ بھر ھمارے ھی گھر پر رھنا ھو گا۔ آپ فکر نہ کریں، ھم ان کا اچھے سے خیال رکھیں گے۔ یہ سن کر اس کے چہرے پہ شرمندگی اور خوشی کے ملے جلے اثرات پیدا ھوۓ۔ اس نے تھوڑی سی بحث کے بعد اجازت دے دی۔ میں نے اٹھتے ھوۓ کہا کہ علاج میں پندرہ بیس دن بھی لگ سکتے ھیں۔ اس نے اور بھی خوشی محسوس کی۔ کہنے لگا۔ سلیم صاحب، میں تو چاھتا ھوں کہ میری ماں ٹھیک ھو جاۓ، بھلے مہینہ لگ جاۓ۔ اور یوں، اس طرح، اماں، مستقل ھماری ھی ھو کے رہ گئیں اگلے دن ، وہ بڑھیا ھمارے گھر منتقل ھو گئ۔ بس وہ بڑھیا کیا تھی۔ سفید روئ کا گالہ سی تھی۔ نور کا اک ڈھیر سا تھا لاغر سی، کمزور سی۔ جیسے زمانے بھر کے غم، اس کے

نورانی جھریوں بھرے چہرے پہ تحریر تھے۔ آنکھوں کے بجھتے چراغ۔ کپکپاتے ھونٹ۔ مناسب خوراک اور دیکھ بھال نہ ھونے کی وجہہ سے حالت اور زیادہ خراب تھی۔ میری بیوی تو تن من، دھن سے اس کی سیوا میں جُٹ گئ ۔ اس کے لیے ہر چیز نئی خریدی گئی۔ بستر، کمبل، چادریں، کپڑے۔ اچھی خوراک، اور خدمت سے اماں کے چہرے پہ رونق آنے لگی. پتا ھی نہ چلا، مہینہ گزر گیا۔ پہلے اس کی بہو ھر دو دن بعد آتی رہی۔ پھر چار دن کا وقفہ ھوا، پھر ھفتہ ھونے لگا۔ اماں کو واپس لے جانے کی بات نہ اس نے کی، نہ ھم نے۔ دوسرا مہینے میں وہ ایک ھی دفعہ آئی۔ گھر کی مصروفیت کا رونا روتی رہی۔ تیسرے مہینے کے بعد، اس نے آنا بند کر دیا۔ میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ اب اماں، تمہاری ذمہ داری بن گئی ھے، اب تم سنبھالو۔ بیوی نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ

غالبآ ساتواں مہینہ تھا کہ اس آدمی کو اس کی بیوی نے ق-ت-ل کردیا اور بعد میں وہ خود بھی پکڑی گئی۔ اور یوں، اماں، صرف ھماری ہی ہو کے رہ گئیں۔ ادھر جیسے جیسے اماں کی توانائی بحال اورہی تھی اور چہرے پہ رونق، مسکان آنے لگی تھی۔ ویسے ویسے، میرا کاروبار ترقی کرنے لگا۔ ایسے لگتا تھا جیسے مجھ پر دھن برسنے لگا ھو۔ سال بھر میں میری تین دکانیں ھو چکیں تھیں۔ تیسرے سال ھم تینوں، میں، بیوی اور اماں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ گلستان جوہر میں پانچ سو گز کا بنگلہ خرید کر وھاں شفٹ ھو گۓ۔ اماں، ھمارے ساتھ سات سال رھیں، ھر پل ان کا ھمیں دعائیں دیتے گزرتا۔ اور ھم میاں بیوی، خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ عجیب کرامت یہ ھوئی کہ اماں کی برکت اور دعاؤں سے، اللہ رب العزت نے مجھے اولاد سے نوازا۔ آج وہ ھمارے

درمیاں نہیں، مگر ان کی کمی شدت سے محسوس ھوتی ھے۔ جیسے کوئی اپنا کہیں کھو گیا ھو۔ ھم نے بھی کبھی ان سے ان کا نام تک نہ پوچھا۔ بس ان سے اک خلوص کا رشتہ تھا۔ پچھلے دنوں، میری بیوی بہت خوش تھی۔ وجہہ پوچھی تو کہنے لگی. میں نے ایک خواب دیکھا ھے۔ کیسا خواب؟ میں نے دیکھا کہ م-ح-ش-ر کا دن ھے۔ اور سب حیران و پریشان کھڑے ھیں۔ ان میں، میں بھی کھڑی ھوں کہ اتنے میں، اماں آئیں اور میرا ھاتھ پکڑ کر کہنے لگیں۔ منیرہ، ادھر آ، میرے ساتھ ، تجھے پل صراط پار کرا دوں۔ میں ان کے ساتھ چلی، ھم ایک باغ سے گزرے، تھوڑی دیر میں باغ ختم ھوا تو ایک بڑا سا میدان آگیا تو اماں کہنے لگیں، بس ھو گیا پل صراط پار۔ میں حیران ھوئی۔ تو وہ بھی زور سے ہنسے لگیں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ مبارک ھو بھئی۔ بہت اچھا خواب ہے مگر

تمہیں میرا خیال نہ آیا؟ قسم سے میں اتنی پریشان تھی کہ چلو۔ خیر ہمیں بھی کوئی نہ کوئی مل ھی جاۓ گا جو پل صراط پار کرا دے۔ آمین۔ بیوی نے جیسے دل کی گہرائیوں سے کہا۔ اور پھر اس کو میں نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا خواب میں بھی دیکھ چکا ھوں بس فرق یہ تھا کہ اماں نے میرا ھاتھ پکڑتے وقت کہا تھا ، چلو ، تمہیں منیرہ کے پاس لے چلوں وہ پل صراط کے پار، تمہارا انتظار کر رھی ھے..!!

Leave a Comment