اس کا نام ڈاکٹر لارنس براؤن تھا وہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا تھا مگر بقول اس کے وہ ہوش سنبھالنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی عیسائی نہیں رہا تھا وہ ملحد ہو گیا تھا۔ وہ کسی خدا کا قائل نہیں تھا۔ وہ نہ صرف امریکہ کا بہترین ہارٹ اسپیشلسٹ تھا بلکہ پورے براعظم امریکہ میں شاید اس کے مقابلے کا کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ وہ دنیا بھر میں لیکچر دیتا تھا۔ اس کی ڈیوٹی امریکہ کے
بہترین اسپتال میں تھی جہاں رونالڈ ریگن کو گ-و-ل-ی لگنے کے بعد فوری طور پہ شفٹ کیا گیا تھا۔ اس سے اس اسپتال کی اہمیت اور سہولیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر یہی اھم ترین اسپتال اور اس کی سہولیات ایک دن اس کے سامنے بے بس و لاچار سر جھکائے کھڑی تھیں۔ یہ سال تھا 1990 جب اس کے گھر اس کی دوسری بیٹی حنا پیدا ھوئی۔ بچی کو لیبر روم سے سیدھا آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا کیونکہ وہ ابنارمل پیدا ھوئی تھی۔ اس کی ایک آرٹری میں نقص تھا جس کی وجہ سے اس کے بدن کو آکسیجن ملا خ-و-ن نہیں مل رہا تھا اور وہ سر سے پاؤں کے انگوٹھے تک پیدا ھوئی تھی۔ بقول ڈاکٹر صاحب کے میں خود ڈاکٹر تھا اور مجھے پتہ تھا کہ میری بچی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ اس کا بدن مر رھا تھا کیوں کہ اسے آکسیجن ملا خ-و-ن نہیں مل رہا تھا۔ اس کا
علاج یہ تھا کہ اس کی چیر پھاڑ کر کے آرٹری کی گرافٹنگ کر کے اسے ری پلیس کیا جائے۔ مگر پہلی بات یہ کہ اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ گرافٹنگ کامیاب بھی ہو جائے تو بھی سال دو سال بعد پھر گرافٹنگ کرنی ہو گی یوں زیادہ سے زیادہ دو سال کی زندگی لے کر میری بیٹی آئی تھی اور اس وقت اس کی جو حالت تھی اسے میں بطور باپ تو اس کو چ-ی-ر پھاڑ نہیں سکتا تھا اس کے لئے ایک نہایت لائق ڈاکٹر کی سربراہی میں ایک ٹیم بنا دی گئ جو اپنا ساز و سامان اکٹھا کرنے میں لگ گئ اور میں آپریشن تھیٹر کے ساتھ ملحقہ ”کمرہ استغاثہ” میں چلا گیا!! کمرہ فریاد میں کسی مذہب کی کوئی نشانی یا مونو گرام نہیں تھا۔ نہ کعبہ، نہ کلیسا، نہ مریم و عیسی کی تصویرنہ ڈیوڈ اسٹار نہ ھندو کا ترشول الغرض
وہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے بنایا گیا کمرہ تھا۔ جہاں وہ آپریشن کے دوران اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعا مانگتے تھے۔ جب تک ان کا مریض آپریشن تھیئٹر سے منتقل نہ کیا جاتا۔ اس سے قبل ڈاکٹرلارنس براؤن کے لئے یہ کمرہ ایک کے سوا کچھ نہیں تھا مگر آج اس کی اپنی جان پر بن گئ تھی۔ بقول ڈاکٹر لارنس براؤن میں نے آج تک جو چاہا تھا اسے ہر قیمت پر حاصل کر لیا تھا۔ چاہے وہ پیسے سے ملے یا اثر و رسوخ سے ”نہ اور ناممکن” جیسے الفاظ میری ڈکشنری میں نہیں تھے۔ مگر آج میں بےبس ہو گیا تھا نہ تو سائنسی آلات و وسائل کچھ کر سکتے تھے اورنہ ہی میرا پیسہ میری بچی کی جان بچا سکتا تھا۔ میں نے ہاتھ اٹھائے اور اس نادیدہ ہستی کو پکارا جس کے وجود کا میں آج تک منکر تھا۔ اے خالق! اگر تُو واقعی موجود ہے تو پھر تُو
یہ بھی جانتا ہو گا کہ میں آج تک تیرے وجود کا منکر رہا۔ مگر آج میری بیٹی مجھے تیرے در پہ لے آئی ہے۔ اگر واقعی تیرا وجود ہے توپلیز میری مدد فرما۔ اسباب نے جواب دے دیا ھے اب میری بچی کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو صرف اس کا بنانے والا ہی بچا سکتا ہے۔ وہی اس فالٹ کو درست کر سکتا ہے جس نے یہ بچی تخلیق فرمائی ہے۔ اے خالق میں صدقِ دل کے ساتھ تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تو میری بچی کا فالٹ درست فرما دے تو میں سارے مذاہب کو اسٹڈی کر کے ان میں سے تیرے پسندیدہ مذہب کو اختیار کر لوں گا اور سارے زندگی تیراغلام بن کر رہوں گا۔ یہ میرا اور تیرا عہد ہے۔ میں نے صدق نیت سے یہ پیمان کیا اور اٹھ کر آپریشن تھیئیٹر میں آیا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ لگے ہونگے۔ مگر جب میں آپریشن روم میں آیا تو وہاں کی بدلی ہوئی فضا کو میں نے ایک لمحے میں محسوس کر لیا۔