کیا آپ کو پتا ہے استغفارکرنےکےلیے کِن چھ باتوں کا اقرارکرنا پڑتا ہے

اَستغفر اللّٰہ

بی کیو نیوز! کسی شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے بُلند آواز سے اَستغفر اللّٰہ کہا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اُس سے فرمایا کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کیا ہے؟ استغفار بُلند مرتبہ لوگوں کا مقام ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو چھ باتوں پر حاوی ہے۔ (1) یہ کہ جو ہو چکا اُس پر نادم ہوں۔ (2) یہ کہ ہمیشہ کے لیے اُس کے مرتکب نہ ہونے کا پکّا ارادہ

کر چُکا ہوں۔ (3) یہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا۔  یہاں تک کہ اللّٰہ کے حضور میں اِس حالت میں پہنچ جاؤ کہ تمہارا دامن پاک و صاف ہو اور تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ (4) یہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے اور تم نے انہیں ضائع کر دیا تھا اُنہیں اب پورے پر بجا لاؤ۔ (5) یہ کہ جو گ-و-ش-ت ح-ر-ا-م سے نشوونما پاتا رہا ہے اُس کو غم و اندوہ سے پگھلاؤ یہاں تک کے کھال کو ہڈیوں سے ملا دو کہ پھر سے ان دونوں کے درمیان نیا گ-و-ش-ت پیدا ہو۔ اور (6) یہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو جس طرح اُسے گ-ن-ا-ہ کی شیرینی سے لذت اندوز کیا ہوا ہے۔ اور پھر کہو استغفر اللّٰہ۔ اِس فرمان سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ استغفار نہیں کرنا چاہیے یا بُلند آواز میں استغفار کرنے میں کوئی بُرائی ہے بلکہ یہ فرمان استغفار پڑھنے والے

کا صحیح مقام پہچاننے اور اپنے قول میں صادق ہونے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اِس فرمان میں اِس جانب اشارہ ہے کہ جب تک تُو نے دنیا سے مُنہ ہی نہیں موڑا، گزشتہ خطاؤں سے صدقِ دل سے توبہ ہی نہیں کی تو تُو کس حق سے اللّٰہ سے مغفرت کا طلبگار ہو رہا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بُلند منزلت لوگوں کی نشاندہی بھی فرما دی کہ ایسے لوگ اللّٰہ سے مغفرت طلب کرنے کے حقدار ہیں جو گُ-ن-ا-ہ کے جہان سے خود کو الگ کر چُکے ہیں ورنہ جس نے گُ-ن-ا-ہ کا ارادہ ہی نہیں چھوڑا۔ جس نے اللّٰہ کی جانب رُخ ہی نہیں پھیرا اُس کا یہ کہنا ہی درست نہیں ہے کہ میں اللّٰہ سے مغفرت کا طلبگار ہوں۔

Leave a Comment