بی کیونیوز! جب حج کے موقعے پر عورت کے لیے انگلی کے پَورے سے زیادہ بال کاٹنا جائز نہیں تو عام حالات میں اس کے لیے اس سے زیادہ بال کاٹنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آج کل مغرب کی حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی میں عورتوں میں پورے بال رکھنے کے بجائے پٹے نما فیشنی بالوں کا رواج جو عام ہورہا ہے، وہ یکسر غلط ہے۔ شرعی لحاظ سے اس کی کوئی گنجایش نہیں: دوسرے، اس سے
بے پردگی کو فروغ مل رہا ہے۔ تیسرے، اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ اس سلسلے میں ازواجِ مطہراتؓ کے عمل سے دلیل پکڑی جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے بال کاٹ لیے تھے، حتیٰ کہ وہ ’’وَفْرَہ‘‘ کی طرح ہوگئے تھے۔ ’’وَفْرَہ‘‘ با ل کانوں کی لَو تک ہوتے ہیں، جیسے پٹے بال ہوتے ہیں۔ ازواجِ مطہراتؓ کے اس عمل کی بابت علما نے لکھا ہے کہ ان کا یہ عمل زیب و زینت کے لیے نہیں بلکہ ترکِ زینت کے لیے تھا اور نبی اکرم کی وفات کے بعد انھوں نے ایسا کیا تھاکیوں اب انھیں کسی قسم کی زیب و زینت کی حاجت نہیں تھی۔ آج کل عورتیں لمبے بالوں کے بجائے جو چھوٹے بال رکھتی ہیں تو وہ ایسا ایک تو زیب و زینت کے لیے کرتی ہیں اور زیب و زینت بھی وہ جسے دنیا دیکھے۔ گویا بے پردگی بھی اس فیشن کا لازمی حصہ ہے، حالانکہ عورت کے لیے زیب و زینت کا اظہار صرف خاوند کے سامنے
کرنے کی اجازت ہے نہ کہ غیروں کے سامنے بھی اور چھوٹے بالوں کا مقصد ہی دنیا کے سامنے اپنے حسن و جمال کا اظہار ہے۔ دوسرے اس میں غیر مسلم عورتوں کی نقالی ہے جیسا کہ یہ فیشن مغربی ملکوں کی عورتوں میں رائج ہے جہاں نہ صرف یہ کہ پردے کا کوئی تصور نہیں بلکہ وہاں مرد و زن کا اختلاط عام اور عورتوں کو مرد بننے کا خبط و جنون معروف ہے، جس عمل کی بنیاد ہی بے پردگی، غیروں کے سامنے زیب و زینت کے اظہار اور کی نقالی پر ہو وہ عمل کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ شرعی لحاظ سے تو اس کی ہرگز اجازت نہیں
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F5802%2F">logged in</a> to post a comment.