بی کیو نیوز! نماز کی حالت میں مرد کا لباس قابلِ ستر حصہ ن-ا-ف سے لے کر گھٹنوں تک ہے البتہ ایک حدیث کی رو سے اس کے کندھوں پر بھی لباس کا کچھ حصہ ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط پر پورا اترنے والا لباس مرد کی نماز کے لیے کافی ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بھی اس کا لباس زینت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہو، جیسا کہ سورۃالاعراف (آیت31) میں ہے: ’’اے بنی آدم! ہر نماز کے
وقت اپنے آپ کو مزین کیا کرو۔‘‘ عورت کے لیے نماز میں کون سا لباس ضروری ہے؟ اس کے لیے کن اعضائے جسم کو ڈھانپنا ضروری ہے؟ جنھیں اپنے شوہر اور محرم رشتہ داروں کے سامنے تو ن-ن-گ-ا کرسکتی ہے مگر نماز میں نہیں، چاہے وہ اکیلی ہی نماز کیوں نہ پڑھ رہی ہو، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ نماز میں عورت کا سارا جسم ہی مقامِ ستر ہے، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔ نبی اکرم کا فرمان ہے: ’’عورت(ساری کی ساری) ہی مقامِ پردہ ہے۔‘‘ کیونکہ نماز کی حالت میں اس کے لیے چہرے کو چھپانا ضروری نہیں، وہ ن-ن-گ-ے چہرے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے، لیکن یہ حالت اس وقت ہوگی جب غیر مردوں کا سامنا نہ ہو، اگرمسلسل مردوں کا سامنا رہے، جیسا کہ آجکل حجاج و عمار کی کثرت کی وجہ سے ہے تو اس کے لیے منہ کا ن-ن-گ-ا رکھنا ضروری نہیں ہوگا، بلکہ عام حالات کی طرح
چہرے کا پردہ بھی ضروری ہوگا۔ یہ تو ہاتھ اور چہرے کے متعلق تھا۔ اب لباس کی مقدار کیا ہے؟ تواس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ لباس کی افضل و مستحب مقدار یہ ہے کہ عورت ایک نہ دو بلکہ تین کپڑوں میں نماز ادا کرے کیونکہ یہ صورت زیادہ ساتر ہے۔ امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ سے مروی ہے:’’عورت کو چاہیے کہ وہ3 کپڑوں میں نماز ادا کرے، پاؤں تک لمبی قمیص یعنی میکسی اور دوپٹا اور قمیص کے نیچے ازار یا تہمد۔‘‘ جس کے قائم مقام آج کل پاجامہ یا شلوار ہے۔ یہ تو ہوا نماز میں عورت کے لباس سے تعلق رکھنے والی بعض ضروری تفصیلات، جبکہ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ احادیث میں عورت کے لباس کی ان تفصیلات کے علاوہ اس بات کی صراحت بھی آئی ہے کہ اس کے لباس کا کپڑاکیسا ہونا چاہیے؟ یہ نہیں کہ جس کپڑے میں چاہے نماز پڑھنے لگے، یا گلی بازار میں
نکل جائے بلکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ عورت کے لیے لباس کا کپڑا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ پتلا ہونے کی وجہ سے وہ جسم کے رنگ کی چغلی کھائے یا تنگ و چست ہونے کی وجہ سے اعضاے جسم کی حد بندی کرنے کی گ-س-ت-ا-خ-ی- کا مرتکب ہو رہا ہو، کیونکہ ایسا لباس اس دربارِ عالی کی حاضری کے شایان شان نہیں ہے۔ چنانچہ ’’معجم طبرانی صغیر‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا: ’’میری امت کے آخری دور میں ایسی عورتیں پیدا ہوں گی جو لباس پہننے کے باوجود عریاں (ن-ن-گ-ی) ہوں گی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں جیسے (جوڑے) ہوں گے۔ ان پر لعنت بھیجو وہ ملعون عورتیں ہیں۔‘‘ صحیح مسلم و موطا امام مالک اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓسے مروی حدیث میں ان الفاظ پر مستزادیہ بھی ہے کہ ایسی عورتوں کے
بارے میں نبی مکرم کا فرمان ہے: ’’وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ وہ جنت کی خوشبو تک پائیں گی، جبکہ جنت کی خوشبو پچاس سال کے فاصلے پر بھی پائی جائے گی۔‘‘ نبی اکرم کی مراد وہ عورتیں ہیں جو اتنے باریک کپڑے کا لباس پہنتی ہیں جو ساتر ہونے کے بجائے ان تمام اعضا کے اوصاف بتا رہا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں نام کو تو لباس میں ملبوس ہوتی ہیں، لیکن فی الحقیقت وہ عریاں (ن-ن-گ-ی) ہوتی ہیں۔ ایسا کپڑا پہننے کی مما نعت کا پتہ بعض آثار سے بھی چلتا ہے، مثلاً طبقات ابن سعد میں ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ منذر بن زبیر عراق سے لوٹ کر آئے تو انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کی طرف باریک مروزی کوہستانی کپڑے کا لباس بھیجا جبکہ ان دنوں موصوفہ نابینا ہوچکی تھیں۔ لہٰذا انھوں نے اپنے ہاتھ سے اس کپڑے کو چھوا اور فرمایا: ’’اُف یہ کپڑا انھیں واپس لوٹا دو۔‘‘ حضرت منذر
کو یہ ناگورا گزرا اور عرض کی: ’’امی جان! اس میں سے بدن کا رنگ نظر نہیں آتا تو انھوں نے فرمایا: ’’یہ اگرچہ رنگ نہیں بتاتا لیکن اعضاے جسم کے اوصاف و حدود تو بتاتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم نے کہا ہے کہ ایسے کپڑے سے ستر پوشی کرنا واجب ہے جو بدن کے رنگ کو ظاہر نہ کرے اور اگر کوئی ایسا باریک کپڑا ہو، جس کے نیچے سے رنگ ظاہر ہو تو اس کپڑ ے کا پہننا جائز نہیں کیونکہ اس سے ستر پوشی کی غرض پوری نہیں ہوتی۔ کپڑا اتنا تنگ و چست نہیں ہونا چاہیے جو موٹا ہونے کی وجہ سے اگرچہ بدن کے رنگ کا پتا تو نہ دیتا ہو لیکن تنگ و چست اور چپکا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ اعضائے جسم کے حدود اربعہ کی چغلی کھائے۔ کیونکہ کپڑے سے اصل غرض تو رفعِ فتنہ ہو تا ہے اور وہ ڈھیلے ڈھالے اور کھلے کپڑے کے سوا نہیں ہو پاتا۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F5805%2F">logged in</a> to post a comment.