آخری صحابیؓ کا نام کیا تھا جوایک سودس ہجری تک زندہ رہے اور حج کے موقع پرلوگ اُن سے کیا پوچھتے تھے؟

آخری صحابیؓ کا نام کیا تھا جوایک سودس ہجری تک زندہ رہے اور حج کے موقع پرلوگ اُن سے کیا پوچھتے تھے؟

بی کیونیوز! صحابہ میں سب سے آخر میں جس شخص نے و-ص۔ا-ل کیا ان کا نام حضرت ابوطفیل ؓ ایک سودس ہجری میں حضورﷺ کے وصال ایک سوسال تک زندہ رہے۔ حج کا موسم تھا ایک ہجوم میں آگئے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرکے کہا لوگو آؤ اس وقت روئے زمین پر میرے علاوہ کوئی نہیں۔ جس نے حضورﷺ کا دیدار کیا ہو۔ پھر لوگوں کا کیا پیار کیا ہوگا۔ تم نے حضور کو دیکھا ہے تو حضور کا چہرہ کیسا تھا حضور کی آنکھیں کیسی تھیں

زلفیں کیسی تھیں ہامین کی کندل کیسی تھی۔ ابوطفیل نے تین لفظوں میں حضور کا حلیہ بیان کیا۔ علماء نے لکھا ہے جو شخص حضور کا حلیہ بیان کریں لوگوں کے دل میں اسکے لیے جگہ بن جاتی ہے۔ ایک تو بہت سفید رنگ کے تھے حسن نمکین تھا ہر معاملے میں متوازن تھا ۔قد ایسا کہ ناپست کہا جائے نہ بہت لمبا کہا جائے حضور درمیانی قدوقامت کے مالک تھے لیکن ایک شان آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دی تھی کہ لمبے لمبے قد والے صحابی بھی تھے ۔ حضور کا قد لمبا نہیں تھا درمیانہ تھا جب حضور ﷺ آتے تودس ہزار کا مجمع بھی ہوتا حضورﷺ کے کندھے سروں سے اونچے دیکھائی دیتے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو شان دی تھی۔ حضورﷺ کا حسن نمکین تھا۔ احسان بن ثابت کہتے ہیں کہ جب میں حضورﷺکے جمال کو دیکھتا تو آنکھوں پر انگلیاں رکھ انگلیوں کی اوٹ سے دیکھتا ۔حضورﷺ کے جلوں کی چمک سے میری آنکھوں کی بینائی نہ جاتی رہی۔ حسن یوسف میں

پے ک-ٹ-ی-ں مصر میں انگشت زناں سرک-ٹ-ا-ت-ے ہیں تیرے نام پے مردان عرب۔ہمارے پیارے نبی، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی محبّت ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ سورۃ التوبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اے نبیﷺ فرما دیجیے! اگر تمہارے آباؤ اجداد اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال، جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت، جس کے نقصان کا تمہیں ڈ-ر ہے اور وہ گھر، جو تمہیں پسند ہیں،تمہیں اللہ اور اُس کے رسول اور اللہ کے رستے میں ج-ہ-ا-د سے زیادہ محبوب ہیں، تو اللہ کے ع۔ذ-ا-ب کا انتظار کرو اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’ تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مَیں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘ بلاشبہ، آپؐ کی ذات ہی سب سے بڑھ کر

محبّت کیے جانے کے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی اداؤں کو قرآنِ پاک کا حصّہ بنا دیا۔ آپﷺ کے چہرے کا آسمان کی طرف اُٹھنا، آپﷺ کا کلام، آپؐ کے شہر، ج-ن-گ-ی-ں اور فتوحات، قیام اللّیل، دعوت و تبلیغ ، معراج، آپﷺ کے صحابہؓ، آپﷺ کی ازواجؓ، اہلِ بیتؓ آپؐ کی ہجرت، اخلاق غرض پوری زندگی قرآن نے بیان کردی۔ کہیں آپؐ کی رضا میں اللہ کی رضا بتائی گئی۔ اگر آپؐ چادر لپیٹ لیں، تو اللہ پاک’’ یا ایّھا المزّمّل،‘‘ اور ’’یا ایھا المدّثر‘‘ کہہ کر مخاطب کرے، غیر مسلموں کے طعنوں پر’’ اِنا اعطیناک الکوثر‘‘ کی خوش خبری سُنائے۔ کہیں شاہد، کہیں مبشّر، تو کہیں نذیر پکارا گیا۔ سراجِ منیر، رئوف الرّحیم جیسے القابات سے نوازا گیا۔ اللہ کو تو یہ بھی پسند نہیں کہ کوئی اُس کے محبوبؐ کے سامنے بلند آواز سے بات کرے۔اُنھیں روزِ محشر شفاعت کرنے والا بنایا گیا، ساقیٔ ٔ کوثر اور مقامِ محمود سے نوازا گی

Leave a Comment