حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سونے کا بولنے والا بچھڑا

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سونے کا بولنے والا بچھڑا

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سونے کا بولنے والا بچھڑا۔ جن دنوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر معتکف تھے۔ سامری نے آپ کی غیر موجودگی کو غنیمت جانا اور یہ ف-ت-ن-ہ برپا کردیا کہ اس نے بنی ا-س-ر-ائ-ی-ل کے سونے چاندی کے زیورات کو مانگ کر پگھلایا اور اس سے ایک بچھڑا بنایا۔ اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدموں کی خاک جو اس کے پاس

محفوظ تھی اس نے وہ خاک بچھڑے کے منہ میں ڈال دی تو وہ بچھڑا بولنے لگا۔ پھر سامری نے مجمع عام میں یہ تقریر شروع کردی۔ کہ اے بنی ا-س-ر-ائ-یل! حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا سے باتیں کرنے کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے ہیں۔ لیکن خدا تو خود ہم لوگوں کے پاس آگیا ہے اور بچھڑے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہی خدا ہے ”سامری” نے ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ بنی اس-ر-ا-ئ-یل کو بچھڑے کے خدا ہونے کا یقین آگیا اور وہ بچھڑے کو پوجنے لگے۔ اور بارہ ہزار آدمیوں کے سوا ساری قوم نے چاندی سونے کے بچھڑے کو بولتا دیکھ کر اس کو خدا مان لیا اور اس کے آگے سر بسجود ہو کر اس بچھڑے کو پوجنے لگے۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے:۔ ترجمہ:۔ اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی

بے جان کا دھڑ تھا وہ گائے کی طرح آواز کرتا۔ (پ۹،الاعراف:۱۴۸) جب چالیس دنوں کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا عزوجل سے ہم کلام ہو کر اور توراۃ شریف ساتھ لے کر بستی میں تشریف لائے اور قوم کو بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا تو آپ پر بے حد غ-ض-ب و ج-ل-ا-ل طاری ہو گیا۔ آپ نے جوش غ-ض-ب میں اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنا اور مارنا شروع کردیا اور فرمانے لگے کہ کیوں تم نے ان لوگوں کو اس کام سے نہیں روکا۔ حضرت ہارون علیہ السلام معذرت کرنے لگے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔ ترجمہ:۔کہا اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر د-ش-م-ن-و-ں کو نہ ہنسا اور مجھے ظ-ا-ل-م-و-ں میں نہ ملا۔ (پ9،الاعراف:150) حضرت ہارون علیہ السلام کی

معذرت سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے اس بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر اور جلا کر اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی ہے وہ لوگ بچھڑا پوجنے والوں کو ق-ت-ل کریں۔ چنانچہ سامری سمیت ستر ہزار بچھڑے کی پوجا کرنے والے ق-ت-ل ہو گئے۔ اس کے بعد یہ حکم نازل ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر آدمیوں کو منتخب کر کے کوہِ طور پر لے جائیں اور یہ سب لوگ بچھڑا پ-و-ج-ن-ے والوں کی طرف سے معذرت طلب کرتے ہوئے یہ دعا مانگیں کہ بچھڑا پوجنے والوں کے گ-ن-اہ- معاف ہوجائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے

چن چن کر اچھے اچھے ستر آدمیوں کو ساتھ لیا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ جب لوگ کوہِ طور پر طلب معذرت و استغفار کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ:۔ ”اے بنی اس-ر-ائ-یل!میں ہی ہوں، میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں نے ہی تم لوگوں کو ف-ر-ع-و-ن کے ظ-ل-م سے نجات دے کر تم لوگوں کو بچایا ہے لہٰذا تم لوگ فقط میری ہی عبادت کرو اور میرے سوا کسی کو مت پوجو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ کلام سن کر یہ ستر آدمی ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ اے موسیٰ! ہم ہرگزہرگز آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یہ ستر آدمی اپنی ضد پر بالکل اَڑ گئے کہ ہم کو آپ خدا کا دیدار کرایئے ورنہ ہم ہرگز نہیں ما نیں گے کہ خداوند عالم نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے

ان لوگوں کو بہت سمجھایا، مگر یہ ش-ر-ی-ر و س-ر-ک-ش لوگ اپنے مطالبہ پر اڑے رہ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غ-ض-ب و جلال کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے ایک ایسی خ-وف-ن-ا-ک چیخ ماری کہ خ–و-ف و ہراس سے لوگوں کے دل پھٹ گئے اور یہ ستر آدمی م-ر گئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند عالم سے کچھ گفتگو کی اور ان لوگوں کے لئے زندہ ہوجانے کی دعا مانگی تو یہ لوگ زندہ ہو گئے۔ (تفسیر صاوی،ج۱،ص۶۴،۶۵،پ۱،البقرۃ : ۵۵،۵۶ )

Leave a Comment