بی کیونیوز! علامہ قطب الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابوطاہر قرامطی بدبخت کو ابرہہ کی طرح بیت اللہ کی بجائے اپنے شہر ’’ہجر‘‘ میں حج کا اجتماع کرانے کا جنون دماغ میں پیدا ہوا، اس نے اس غرض سے ایک عالی شان محل بنوایا جس کا نام ’’دارالہجرہ‘‘ رکھا، چناں چہ ۳۱۷ ھ میں حج کے ایام میں ایک ل-ش-ک-رِ جرار لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا، طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور احرام کی حالت میں
حاجیوں پر دستِ س-ت-م دراز کیا، حد یہ کہ حرمِ محترم کے اندر بھی بے دریغ ق-ت-ل کیا، شہر کے علاوہ گرد ونواح میں ق-ت-لِ عام کا بازار گرم کیا، تیس ہزار بے گ-ن-ا-ہ انسانوں کے خ-و-ن سے اپنے ہاتھ رنگین کیے، اس قدر روح فرسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا تھا، وہ ظ-ا-ل-م کہتے تھے کہ تم مسلمان کہتے ہو: ’’من دخله کان آمناً‘‘ (یعنی جو حرم میں داخل ہوگیا وہ مامون ہوگیا) بتاؤ اب امن کہاں گیا؟‘‘ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’ابوطاہر نے کعبۃ اللہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا، غلافِ کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے فوجیوں میں بانٹ دیا، حجرِ اسود کو اکھاڑکے ساتھ لے گیا، اہلِ مکہ کے گھر بار اور مال ومتاع کو لوٹ لیا، اس نے روانگی کے وقت یہ اعلان کردیا کہ آئندہ سے حج اس کے ہاں ہوا کرے گا۔‘‘ خلافتِ مستکفی کے امراء نے بے حد کوشش کی کہ کسی طرح حجرِ اسود واپس آجائے، انہوں نے
پچاس ہزار دینارسرخ کی پیش کش بھی کی، مگر قرامطی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وہ (ابوطاہر) اس خیالِ فاسد پر قائم تھا کہ یہ ناپاک جسارت اپنے امام عبید اللہ المہدی والی افریقہ کی خوشنودی کے لیے کررہا ہے، لیکن جب منصور اسماعیل نے قیروان سے حجرِ اسود کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کیا اور ادھر عبید اللہ المہدی نے بھی ابوطاہر کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر حجرِ اسود واپس نہ کروگے تو پھر ج-ن-گ کے لیے تیار ہوجاؤ، اس لیے مجبوراً ۳۳۹ھ میں واپس کرنا پڑا، جب کہ اس سے قبل خلافتِ مستکفی کی جانب سے پچاس ہزار دینار کے عوض بھی واپسی کا مطالبہ مسترد کردیاگیا تھا۔ (ابن خلدون،ج:۵،ص:۱۹۶)
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F6241%2F">logged in</a> to post a comment.