بی کیونیوز! شبِ برأت میں عبادت کیسے کی جائے؟ اس رات اکیلے عبادت کرنا اور اجتماعی طور پر عبادت کرنا دونوں ہی طریقے ائمہ سے ثابت ہیں۔ اس رات جاگنا، عبادت کرنا چونکہ مستحب عمل ہے، لہٰذا ہماری رائے کے مطابق اسے انسانی طبیعت اور مزاج پر چھوڑنا چاہیے، جس طریقہ میں کسی کی طبیعت اور مزاج کیف و سرور اور روحانی حلاوت محسوس کرے اسے چاہیے کہ وہ
وہی طریقہ اختیار کرے۔ کیوں کہ اس رات کا اصل مقصود تزکیہ و تصفیہ قلب ہے۔ سو جسے جس طریقہ میں حلاوت ایمانی نصیب ہو اسے اسی پر عمل کر لینا چاہیے۔ بعض لوگوں کی طبیعت خلوت پسند ہوتی ہے اور انہیں تنہائی میں عبادت اور گریہ زاری کرنے سے حلاوت و سکون اور ذہنی یکسوئی ملتی ہے، سو وہ اس طریقہ کو اختیار کرلیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے برعکس بعض لوگ اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں زیادہ آسانی اور راحت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے اس طریقے پر عمل کرنے میں رخصت ہونی چاہیے کیوں کہ یہ عمل بھی ائمہ سے ثابت ہے۔ بلکہ آج کا دور چونکہ سہل پسندی اور دینی تعلیمات سے بے راہ روی کا دور ہے، اس دور میں وہ لوگ بھی کم ہیں کہ جن کے گھر اور راتیں قیام اللیل کے نور سے جگمگاتی ہیں۔ اور طبیعتوں میں
اتنی مستقل مزاجی بھی نہیں رہی کہ لوگ گھروں میں رات بھر جاگ کر چستی و مستعدی سے عبادت و اذکار ادا کر سکیں۔ تنہائی میں کچھ دیر عبادت سے ہی سستی اور نیند کے ہتھیار کے ذریعے شیطان لعین ان پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اگر اجتماعی عبادت سے لوگوں میں دین سے رغبت اور عبادت میں مستعدی پیدا ہوتی ہے تو ان کے لیے اجتماعی طور پر عبادت کرنا مستحسن عمل ہے۔ اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں تعلیم و تربیت کا عمل بھی پایا جاتا ہے۔ دینی تعلیمات اور نوافل و اذکار کی ادائیگی سے بے بہرہ لوگ بھی آسانی سے اجتماعی عمل میں شریک ہوکر اپنی عبادات کی ادائیگی کرلیتے ہیں اور جو چیزیں معلوم نہیں ہوتیں وہ جان لیتے ہیں۔ اس اَمر کا خیال رہے کہ اجتماعی عبادات کسی عالم باعمل کی زیر تربیت و نگرانی ہونی چاہیے،جو لوگوں کی فکری اور روحانی ہر دو حوالوں سے تربیت و اصلاح بھی کر سکے۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F6273%2F">logged in</a> to post a comment.