بی کیونیوز! مسند احمد میں حضرت ابنِ عُمرؓ سے مروی ہے کہ9ہجری میں رسول اللہﷺ تبوک جاتے ہوئے جب وادیٔ ث-م-و-د سے گزرے، تو آپﷺ نے اس ویران اور اجڑی جگہ کو دیکھ کر صحابہؓ سے فرمایا ’’یہاں سے جلدی سے گزر چلو اور اگر پانی کی ضرورت ہو، تو صرف اس کنویں کا پانی استعمال کرو، جس سے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔‘‘ بعض صحابہؓ نے دوسرے کنوئوں سے پانی لے کر
آٹا گوندھ لیا تھا، آپﷺ نے اسے پھینکوا دیا۔ اس عرصے میں آپﷺ مسلسل ت-و-ب-ہ- استغفار کرتے رہے۔ پھر نبی کریمﷺ نے اپنے اصحابؓ کو منع فرمایا کہ’’ قومِ ث-م-و-د جو ع-ذ-ا-ب سے ہ-ل-ا-ک ہوئی، اُن کے گھروں اور بستیوں میں نہ جائیں‘‘ اور فرمایا کہ ’’مجھے خ-و-ف ہے کہ کہیں تم کو بھی وہی (ع-ذ-ا-ب) نہ پہنچ جائے، جو اُن کو پہنچا تھا، لہٰذا اُن کے پاس نہ جائو۔‘‘ حضرت صالح ؑ کی عُمر اور مزار ابنِ کثیرؒ کے مطابق آپؑ کا انتقال دو سو اسّی برس کی عُمر میں ہوا۔ مفسّرین میں اس پر مختلف آراء ہیں کہ قوم پر ع-ذ-ا-ب کے بعد حضرت صالح ؑنے کہاں قیام فرمایا۔ اکثر نے تحریر کیا کہ ث-م-و-د کی ہ-ل-ا-ک-ت کے بعد آپؑ اہلِ ایمان کے ساتھ شام تشریف لے گئے اور پھر فلسطین میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مکّہ مکرّمہ آ گئے اور وہیں انتقال ہوا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرت صالح،ؑ قوم پر ع-ذ-ا-ب- کے بعد
عمان (صلالہ) سے دو سو کلومیٹر دُور، ناسک کے مقام پر آباد ہو گئے، جہاں اُن کا انتقال ہوا۔ ناسک میں اُن سے منسوب ایک مزار بھی ہے، جہاں زائرین کثیر تعداد میں فاتحہ کے لیے آتے ہیں. اکثر نے تحریر کیا کہ ث-م-و-د کی ہ-ل-ا-ک-ت کے بعد آپؑ اہلِ ایمان کے ساتھ شام تشریف لے گئے اور پھر فلسطین میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مکّہ مکرّمہ آ گئے اور وہیں انتقال ہوا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرت صالح،ؑ قوم پر ع-ذ-ا-ب کے بعد عمان (صلالہ) سے دو سو کلومیٹر دُور، ناسک کے مقام پر آباد ہو گئے، جہاں اُن کا انتقال ہوا۔ ناسک میں اُن سے منسوب ایک مزار بھی ہے، جہاں زائرین کثیر تعداد میں فاتحہ کے لیے آتے ہیں.