حضرت خضرعلیہ السلام اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا ایمان افروز قرآنی واقعہ

حضرت خضرعلیہ السلام اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا ایمان افروز قرآنی واقعہ

بی کیونیوز! حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ (علیٰ نبینا وعلیہ السلاۃ والسلام) اللہ عزوجل کے جلیل القدر نبی اور رسول تھے۔ اللہ (عزوجل ) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کو اپنے ساتھ ہمکلامی کا شرف بخشا۔ اسی وجہ سے انہیں “کلیم اللہ” کا لقب ملا۔ یعنی جو اللہ (عزوجل) سے کلام کرتا ہو۔جس طرح آپ اور میں موبائل فون سے کسی کا بھی نمبر ڈائل کرکےاس سے بات کرسکتے ہیں اسی طرح سیدنا موسیٰ (علیہ السلام ) ہزاروں سال

پہلے “جبل طور” پر چڑھ کر اللہ عزوجل سے ہمکلام ہوا کرتے تھے۔ اللہ اکبرجب اللہ کے عاشقوں کے دل میں اللہ (عزوجل) سے شدید محبت پیدا ہونے لگتی ہے تو عشاق چاہتے ہیں کہ اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اپنے رب سے باتیں کریں۔ سیدنا موسیٰ ( علیہ السلام) بھی اللہ عزوجل سے شدید محبت کرتے تھے، اسی محبت کی شدت کی وجہ سے وہ اللہ (عزوجل) سے درخواست کرتے تھے کے اے اللہ مجھے اپنا دیدار کروا۔ اللہ عزوجل فرماتے، اے موسیٰ تم برداشت نہیں کرپاؤ گے۔ سورہ الاعراف: آیت ،143،144 ترجمہ: ” اور جب موسٰی (علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا تو (کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کا آرزو مند ہوا اور) عرض کرنے لگا: اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، ارشاد ہوا: تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکوگے مگر پہاڑ کی طرف

نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ اَنوار سے) اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں”۔(143)” فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو”۔(144) جب بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ عزوجل سے باتیں کرنی ہوتیں آپ جبل طور پر چڑھ جاتے اور وہاں خوب باتیں کرتے۔ ایک دن اسی طرح باتیں کرتے کرتے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام9 نے فرمایا؛ “اے اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ علم والا شاید ہی کوئی تیرا بندہ ہو۔” اللہ عزوجل نے فرمایا اے موسیٰ “خضر” تم سے بھی

زیادہ علم والے ہیں آپ نے فرمایا؛ اے اللہ میں اس سے کہاں مل سکتا ہوں، فرمایا “بین سیدین” یعنی دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ پر وہ تمہیں ملے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ اس جگہ کی کیا نشانی ہوگی، فرمایا اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جاؤ، جہاں تمہاری مچھلی غائب ہوجائے وہی مقام ہوگا جہاں خضر تمہیں ملے گا۔قرآن کہتا ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم حضرت “یوشع بن نون” کے ساتھ سفر شروع کیا اور حضرت یوشع سے کہنے لگے” میں ہمیشہ چلتا رہوں گا، کبھی رکوں گا نہیں یہاں تک دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں۔ حضرت یوشع بن نون سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے صحابی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے تھے۔ ان دونوں معزز صاحبان کے چلنے کو قرآن یوں بیان فرماتا ہے؛ ترجمہ : “جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا؛ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں، خواہ مجھے

سالہا سال چلنا پڑے” (سورہ کہف، آیت 60)یہاں لفظ “حقب”استعمال ہوا ہے جس کا ایک مطلب 70 یا 80 سال ہے اور دوسرا مطلب غیر معینہ مدت ہے، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر مجھے 70 یا 80 سال یا غیر معینہ مدت تک ہی کیوں نہ چلنا پڑے، میں چلتا رہوں گا، رکوں گا نہیں یہاں تک اس جگہ پہنچ جاوں جہاں خضر سے ملاقات ہو۔ اللہ اکبرموسیٰ (علیہ السلام) یہ سفر محض اس لیے کر رہے تھے تاکہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے علم حاصل کرسکیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے چاہے جتنا دور جانا پڑے جانا چاہیے مگر علم ضرور حاصل کرنا چاہیے۔یہ بھی یاد رہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ انہوں نے ایک سائل کو کہہ دیا تھا کہ مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ عزوجل کو علم پر تکبر والا یہ جملہ پسند نہیں آیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ عزوجل سے دریافت کیا کہ

اے اللہ کیا مجھ سے بڑا بھی کوئی عالم اس دنیا میں موجود ہے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت خضر (علیہ السلام) کا پتا بتایا۔ حضرت موسیٰ اور یوشع بن نون چلتے رہے، جب دو ریاہوں کے درمیان پہنچے تو وہاں آرام کے لیے رک گئے، جب وہ آرام کے لیے سوگئے تو ان کے تھیلے میں موجود مردہ مچھلی کو اللہ (عزوجل) نے زندہ کردیا اور وہ مچھلی سرنگ بناکر اپنا راستہ خود بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی۔ “پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے اپنی مچھلی بھول گئے اور اس (مچھلی) نے سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی”۔(کہف؛61)یاد رہے یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا ہے، اس وقت دنیا کو معلوم نہیں تھا کہ کوئی مچھلی چل بھی سکتی ہے یا کسی مچھلی کو ہاتھ پاؤں بھی ہوتے ہیں، آج کے جدید دور میں جیوگرافک چینل پر باقائدہ ایسی مچھلیاں دکھائی جاتی ہیں جو اپنے پاؤں پر چلتی ہوئی

یا ساحل سمندر پر سرنگ بناتی ہوئی خود ہی دریا میں چلی جاتی ہیں۔ بیشک میرے اللہ کی کتاب قرآن پاک حق ہے۔ جب مچھلی تھیلے سے نکل کر دریا میں چلی گئی تب موسیٰ (علیہ السلام) نیند فرما رہے تھے جبکہ ان کے خادم نے مچھلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سوچا کہ بعد میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بتاؤں گا لیکن پھر وہ بھی سوگئے اور بعد میں بتانا بھول گئے۔ قرآن فرماتا ہے موسیٰ کا غلام بتانا بھول گیا کیونکہ -ش-ی-ط-ان- -نے اسے واقعہ بھلادیا۔پھر جب وہ نیند سے اُٹھے تو دوبارہ سفر جاری رکھا۔ مزید ایک دن اور اس کے بعد پوری رات سفر کرکے جب اگلا دن آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکاوٹ اور بھوک محسوس ہوئی۔ اپنے ساتھی خادم یوشع بن نون کو کہنے لگے؛ ہمارا کھانا لاؤ، بیشک ہمیں اس سفر میں بڑی مشقت کا سامنا ہوا۔ یہ بھوک اور تھکاوٹ انہیں پہلے پیش نہیں آئی تھی، اس میں اللہ کی حکمت تھی کہ وہ اپنی مچھلی یاد کریں اور

واپس اس جگہ آئیں۔حضرت یوشع بن نون کو یاد آیا کہ مچھلی تو فلاں جگہ ہی دریا میں چلی گئی۔ حضرت یوشع نے کہا؛ سنئے تو کیا آپ نے دیکھا جب ہم اس جگہ پتھر پر ٹیگ لگاکر آرام کر رہے تھے، مچھلی تو وہیں زندہ ہوکر دریا میں چلی گئی تھی اور عجیب طریقے سے اس نے اپنا راستہ بنایا تھا، میں بتانا بھول گیا، ش-ی-ط-ا-ن نے مجھے بھلادیا۔موسیٰ (علیہ السلام) فرمانے لگے یہی تو ہم چاہتے تھے، ہم اسی جگہ کی تلاش میں تھے، یہی وہ جگہ ہے جس کی نشانی مجھے بتائی گئی تھی، خضر وہیں پر ملیں گے۔پھر وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشان دیکھ کر واپس چلتے چلتے اسی جگہ پر آتے ہیں، وہاں انہیں اللہ کا ایک ایسا بندہ ملتا ہے جس کے پاس اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام سے بھی زیادہ علم تھا۔اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے؛ ترجمہ: “بولا بھلا دیکھئے تو جب ہم نے اس چٹان کے پاس جگہ لی تھی تو بےشک میں مچھلی کو بھول گیا اور مجھے ش-ی-ط-ا-ن ہی نے

بھلا دیا کہ میں اس کا مذکور (ذکر) کروں اور اس نے تو سمندر میں اپنی راہ لی اچنبا (عجیب بات) ہے موسیٰ نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے تو پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا”۔ (کہف؛ 63-65)علم لدنی کیا ہے؟ یہ باطن کا علم ہے جو اللہ (عزوجل) نے خصوصا حضرت خضر (علیہ السلام) کو عطا فرمایا یہاں تک کہ اپنے نبی موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کہا کہ خضر آپ سے زیادہ علم والے ہیں۔ علم لدنی وہ علم ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے خودبخود قلب (دل) میں من جانب اللہ آتا ہو۔ اسے علم ربانی،علم عطائی یا علم وہبی بھی کہتے ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں لدنی وہ علم ہے جس کے حصول میں نفس اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو، علم لدنی بمنزلہ روشنی کے ہے کہ سراج غیب سے قلب صاف و شفاف پر واقع ہوتی ہے۔ اس سے

پہلے کہ ہم واقع کی طرف بڑھیں، پہلے جان لیں کہ خضر ہے کون؟خضر علیہ السلام کا اصلی نام “بلیا بن ملکان” اور کنیت” ابو العباس “ہے۔ لفظ خضر کی معنی سرسبز یا شاداب ہے، وہ جہاں بیٹھتے یا جہاں نماز پڑھتے تھے اگر وہ جگہ خشک یا سوکھی گھاس ہوتی تو اس کے نیچے سے سرسبز ہوجاتی تھی یعنی سبزا اگ آتا تھا اسی لیے لوگ انہیں خضر کہنے لگے۔ایک روایت کے مطابق وہ شہزادے ہیں، حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی تھے۔ذوالقرنین کی بادشاہی میں ان کے وزیر اور علم والے تھے۔ انہوں نے حضرت ذالقرنین کے ساتھ ہی مشرق و مغرب کا سفر بھی کیا تھا اور اسی سفر میں انہوں نے چشمہ حیات پیا اور اس سے غسل بھی کیا اور چشمہ حیات پینے کی وجہ سے ان کی زندگی لمبی ہوگئی۔ کہتے ہیں ذوالقرنین نے یہ سفر اسی چشمہ حیات کو پانے کے لیے کیا تھا لیکن وہ تو نہیں پاسکے البتہ ان کے ساتھ آنے والے خضر اس

چشمہ تک پہنچ گئے۔ واقعہ ذوالقرنین بھی سورہ کہف کے آخری دو رکوع میں تفسیل سے موجود ہے۔اللہ فرماتا ہے ہم نے اسے (خضر کو) اپنے پاس سے “خاص رحمت ” عطا فرمائی، مفسرین کہتے ہیں خاص رحمت سے مراد نبوت ہے یا پھر علم لدنی یا ولات یا لمبی عمر۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کی نبوت میں علماء کا اختلاف ہے جبکہ ولایت پر کسی کا اختلاف نہیں ۔ بیشک وہ کامل ولی اللہ تھے۔حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق : جب موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع بن نون واپس اس جگہ پہنچے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ایک شخص سفید چادر اوٹھے آرام فرما رہا ہے۔ آپ سمجھ گئے یہی خضر ہے، آپ نے قریب آکر سلام عرض کیا۔ خضر نے کہا آپ کے سرزمین میں سلام کہاں؟ فرمایا میں موسیٰ ہوں۔ خضر نے کہا بنی اسرائیل کا موسیٰ ؟ فرمایا جی ہاں۔پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : کیا میں

آپ کی اطاعت کروں اس شرط پر کہ اللہ (عزوجل) نے جو علم آپ کو سکھایا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھائیں گے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا اے موسیٰ ! آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے اور آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ آپ کے علم میں وہ شامل ہی نہیں جو میں جانتا ہوں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ انبیاء امور منکرہ اور ممنوعہ دیکھنے پر صبر کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انبیاء کی شریعت میں ایسے کام کرنے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔حدیث میں آتا ہے: حضرت خضر (علیہ السلام) نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا؛ ” ایک علم اللہ (عزوجل) نے مجھے ایسا عطا فرمایا ہے جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو اللہ (عزوجل) نے آپ کو ایسا عطا فرمایا ہے جو میں نہیں جانتا۔مفسرین کہتے ہیں کہ جو علم خضر( علیہ السلام) کو عطا ہوا وہ باطن

یا مکاشفہ کا علم (علم لدنی) ہے اور جو علم سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوا وہ علم شریعت ہے۔خضر نے کہا اے موسیٰ !آپ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے کیونکہ آپ کو وہ علم نہیں جو مجھے عطا ہوا ہے۔ تو سیدنا موسیٰ ( علیہ السلام)نے فرمایا؛ ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی کام میں مخالفت نہیں کروں گا۔ خضر نے کہا اگر اصرار کر تے ہیں تو ٹھیک ہے مگر یاد رکھیں مجھ سے کسی بابت کوئی سوال نہیں کرنا جب تک میں خود اس کے مطلق آپ کو نہ بتادوں۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا ، ٹھیک ہے۔ یہاں دونوں کے درمیان معاہدہ طع پاگیا اور دونوں چل پڑے۔کشتی توڑ ڈالی : اب وہ دونوں ساتھ چلے یہاں تک کہ ایک “کشتی” دیکھی، دونوں اس میں سوار ہوگئے، کشتی والے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہلے سے ہی جانتے تھے اس لیے ان سے کرایہ نہیں مانگا بلکہ ایسے ہی مفت میں سوار کرلیا۔ جب کشتی

دریا کے بیچ پہنچی تو خضر(علیہ السلام) نے اپنے تھیلےسے ہتھوڑا نکال کر کشتی کے فرش سے ایک یا دو تختے توڑ کر اکھاڑ دیےموسیٰ (علیہ السلام) چونکہ ایک نبی تھے اور شریعت میں ایسے حرکت کرنا شخت منع ہے جس سے دوسروں کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں، آپ سے رہا نہ گیا، فورا بول اُٹھے کہ اے خضر ! یہ آ پ نے کیا کردیا، کیا اس لیے تختے توڑدیے کہ کشتی والوں کو ڈبودیں؟ یہ تو آپ نے بڑی خطرناک بات کردی ۔خضر (علیہ السلام) نے کہا، اے موسیٰ ! کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے ! موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا، اے خضر! میری بھول پر مجھے نہ پکڑیں اور میرے کام میں میرے لیے تنگی مت کیجیے۔نابالغ بچے کو ق-ت-ل کردیا : اللہ فرماتا ہے وہ دوبارہ ساتھ چلے، جب کشتی سے اترے تو دیکھا کہ ایک میدان میں کچھ بچے کھیل رہے تھے، جو بچہ ان سب میں خوبصورت تھا، خضر (علیہ السلام) نے اسے پکڑ کر

گلا دبا کر ق–ت-ل کردیا۔موسیٰ (علیہ السلام) سے رہا نہ گیا کیونکہ کسی نابالغ بچے کو ق-ت-ل کرنا تو کشتی والوں کو ڈبونے سے بھی بدتر اور بہت بڑا خطرناک کام تھا، موسیٰ (علیہ السلام) صبر نہ کرسکے اور فوراََ بول پڑے کہ اے خضر ! یہ کیا کردیا اس معصوم بچے کو بغیر کسی وجہ کے ق-ت-ل کردیا؟ بیشک یہ آپ نے انتہائی برا کام کیا ہے۔ خضر (علیہ السلام) بولے اے موسیٰ ! کیا میں نے کہہ نہیں دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے !موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا، اے خضر ! اگر اب کی بار میں کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، بیشک آپ کی طرف سے عذر پورا ہوچکا ہے۔یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خضر علیہ السلام نے ایک معصوم نابالغ بچے کو کیوں ق-ت-ل کردیا۔ اس کا جواب تحریر کے آخر میں خضر (علیہ السلام) کی زبانی ہی سناؤں گا جو قرآن پاک میں بھی

موجود ہے۔اسم اعظم سے دیوار کھڑی کردی : اللہ فرماتا ہے تیسری مرتبہ وہ دونوں ساتھ چلے یہاں تک ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف صاف انکار کردیا۔آپ دیکھیں اللہ کا نبی اور اللہ کا ایک خاص بندہ گاؤں والوں سے کھانا مانگتے ہیں مگروہ گاؤں والے اتنے کنجوس اور بخیل لوگ ہوتے ہیں کہ ایک روٹی تک دینے پر راضی نہیں ہوتے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ وہ گاوں “انطاکیہ” تھا۔جب کسی نے بھی مہمانداری سے انکار کردیا تو وہ چلتے رہے، پھر دونوں نے گاؤں میں ایک دیوار پائی جو گرنے ہی والی تھی، خضر (علیہ السلام) نے اسے ہاتھ لگاکر اسم اعظم پڑھا تو وہ ٹھیک ہوکر سیدھی ہوگئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) جو پہلے ہی گاؤں والے کے رویے سے نالاں تھے کہ انہوں نے مہمان نوازی تک نہیں کی فورا بول اُٹھے کہ اے خضر ! آپ نے دیوار تو سیدھی کردی

اگر چاہتے تو اس کی اجرت لے لیتے تاکہ ہم کھانا کھا سکتے۔یہاں خضر (علیہ السلام) نے کہا، اے موسیٰ ! یہ تیسری مرتبہ ہے آپ صبر نہیں کرسکے اس لیے اب یہ میرے اور آپ کے بیچ میں جدائی ہوئی۔جدائی کا اعلان کرتے ہی حضرت خضر (علیہ السلام) چلے نہیں گئے بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ میں آپ کو ان تمام باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے ۔کشتی کیوں توڑی ؟ حضرت خضر (علیہ السلام) کشتی کے مطلق بتانے لگے کہ وہ کشتی مساکین کی تھی جو دریا میں کشتی چلاکر گزر بسر کرتے تھے، مجھے اپنے علم لدنی سے معلوم ہوا کہ ان کے پیچھے ایک ظ-ا-ل-م بادشاہ ہے جو ہر ثابت کشتی کو چھین لیتا ہے جبکہ عیب والی کشتیاں چھوڑ دیتا ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اس کشتی کو عیب دار کردوں۔بچے کو کیوں ق-ت-ل کیا ؟ بچے کے ق-ت-ل کی تاویل کے طور پر بتانے لگے کہ اے موسیٰ ! وہ بچہ کافر تھا، جبکہ اس بچے کے والدین ایمان والے مومنین تھے، ہمیں خدشہ ہوا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر اپنے ماں باپ کو بھی

ک-ف-ر اور س-ر-ک-شی- پر نہ پھیر دے اس لیے میں نے اسے اللہ کے حکم سے اسے ق-ت-ل کردیا۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ “وہ بچہ پیدائشی ک-ا-ف-ر تھا”۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کو کہا کہ آپ نے ایک پاک نفس کو بغیر کسی وجہ کے ق-ت-ل کردیا تو خضر کو یہ بات مشکل محسوس ہوئی، خضر نے بچے کی گردن توڑ کر گ-و-ش-ت الگ کرکے دیکھا تو وہاں بھی یہی لکھا تھا کہ”ک-ا-ف-ر ہے، کبھی بھی اللہ پر ایمان نہیں لائے گا”۔حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا میں نے اسے اس لیے ق-ت-ل کیا کہ میں اس کے باطن کو دیکھ رہا تھا، وہ پیدائشی ک-ا-ف-ر تھا، ہمیں خدشہ ہوا کہ یہ اپنے مومن ماں باپ کو بھی ک-ف-ر اور س-ر-ک-شی- پر مجبور کردے گا اس لیے ہم نے چاہا کہ اللہ (عزوجل) اس کے ماں باپ کو اس سے زیادہ بہتر پاکیزگی والا اور اس سے بھی زیادہ محبت والا بچہ عطا فرمائے۔مفسرین لکھتے ہیں کہ

پھر اس کے والدین کو اللہ (عزوجل) نے ایک بیٹی عطا فرمائی جو ایک نبی کی بیوی بنی اور اس سے ایک اور نبی پیدا ہوا جس کے ہاتھ پر اللہ (عزوجل ) نے ایک اُمت کو ہدایت بخشی۔ میں نے بہت تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اس بیٹی کا نام اور ان انبیاء کے نام نہیں ڈھونڈ سکا، شاید کوئی تاریخ دان اس معاملے میں میری رہنمائی کردے۔دیوار کیوں سیدھی کی ؟ دیوار کے قصے کے مطلق خضر (علیہ السلام) بتانے لگے کہ وہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی۔ ان یتیم بچوں کا باپ بڑا نیک آدمی تھا۔ اس نے مرنے سے پہلے اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے خزانہ چھپایا تھا۔ اس دیوار کے نیچے ان یتیموں کا خزانہ تھا، تیرے رب کی چاہت یہ تھی کہ یہ یتیم بچے بڑے ہوکر اپنا خزانہ اپنے رب کی مہربانی اور قدرت سے خود نکالیں۔یہ تھی ان واقعات کی اصل تاویل جس پر آپ صبر نہ کرسکے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ دیوار “اصرم اور صریم” نام کے

دو یتیم بھائیوں کی تھی۔ ترمذی کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونا اور چاندی دفن کیے ہوئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ : اس میں سونے کی ایک تختی تھی اس تختی کے ایک طرف لکھا تھا کہ “عجیب حال ہے اس کاجس کو موت کا یقین ہو، اسے خوشی کیسے ہو؟عجیب حال ہے اس کا جو قدرت اور قضا پر یقین رکھتا ہو، اسے غصہ کیسے آئے؟عجیب حال ہے اس کا جسے رزق کا یقین ہو، تو وہ تکلیف میں کیسے پڑسکتا ہے؟عجیب حال ہے اس کا جسے دنیا میں زوال اور تبدیلی کا یقین ہو، وہ مطمئن کیسے رہ سکتا ہے؟ عجیب حال ہے اس کا جسے حساب کا یقین ہو، وہ غافل کیسے رہ سکتا ہے۔اور اس کے ساتھ لکھا تھا ” لاالہ الالاللہ محمد رسول اللہ”۔ اور تختی کے دوسری طرف لکھا تھا “میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اکیلا ہوں، میرا کوئی شریک نہیں، میں نے اچھائی اور برائی پیدا کی۔ اس کے لیے

خوشی جس کو میں نے اچھائی کے لیے پیدا کیا اور اس کے ہاتھ پر اچھائی جاری کی۔ اس کے لیے ت-ب-ا-ہ-ی جس کو برائی کے لیے پیدا کیا اور اس کے ہاتھ پر برائی جاری کی”۔ان دو یتیموں کے والد بہت متقی پرہیزگار آدمی تھے جن کا نام” کاشع “تھا۔ اس متقی آدمی کی وجہ سے اللہ (عزوجل) نے ان کی اولاد کے خزانے کو محفوظ فرمایا۔ مفسرین فرماتے ہیں اللہ (عزوجل) اپنے بندوں کی نیکی کی وجہ سے اس کی اولاد، اولاد کی اولاد، خاندان اور یہاں تک کہ محلے داروں کو بھی اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔ سبحان اللہقارئین! حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں اور وہ نبی تھے یا نہیں تھے ، اس بارے میں علماء کرام کا آپس میں اختلاف ہے، کچھ انہیں زندہ مانتے ہیں تو کچھ کے نزدیک وفات پاچکے ہیں، کچھ انہیں نبی مانتے ہیں اور کچھ فرشتہ تو کوئی ولی اللہ۔ ہر کوئی اپنے اپنے دلائل بھی قرآن و حدیث سے ہی دیتا ہے۔ اس لیے

اس مسلکی بحث کو وہیں رہنے دیتے ہیں۔ ہمیں صرف ان باتوں کو یاد رکھنا چاہیے جو بذریعہ قرآن پاک اللہ نے ہمیں بتائی ہیں۔ باقی اختلافی باتوں کو ہم چھوڑ دینا چاہیے۔بدنصیبی ہے کہ آج ہم نے قرآن پاک کو صرف میت پر پڑھنے کے لیے رکھا ہوا ہے، کبھی جمعہ جمعہ دس دن بعد موڈ ہوا تو کھول کر پڑھ لیا اور وہ بھی صرف عربی پڑھ کر دوبارہ بند کرکے طاق میں سجادیا، ہم عرب تو نہیں کہ عربی سمجھ آئے کہ اس میں لکھا کیا ہے، کسی نے کہا ہر جمعہ کو سورہ کہف پڑھنے سے فلاں فلاں فائدے ہوتے ہیں تو فورا سورہ کہف پڑھنا شروع کردی، کسی نے کہا سورہ بقرہ پڑھنے سے ج-ن-ا-ت بھاگ جاتے ہیں تو عورتیں فورا سورہ بقرہ پڑھنا شروع کردیتی ہیں لیکن مجال ہے جو کبھی اس پر غور و فکر کرنے کے لیے بھی پڑھنا نصیب ہو۔بیشک قرآن کی ہر سورہ کے بیشمار فائدے ہیں لیکن ہمیں قرآن پاک سے صرف فائدے نہیں لینے بلکہ اسے

اپنی زندگی کا آئین بنانا ہے، اس کتاب میں زندگی کے ہر شعبے کے اصول بیان کیے گئے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی کے اصول مغرب کے یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ کتاب مسلمانوں کا آئین ہے لیکن ہم نے اس کتاب کو چھوڑ کر جمہوری آئین بنادیا۔ اللہ (عزوجل) سپریم طاقت ہے لیکن ہم نے یہودی جمہوریت کی پوجا کرتے کرتے پارلمینٹ کو سپریم طاقت مان لیا ہے۔ بیشک انسان خسارے میں ہے۔ (قرآن)میری آپ سب سے گزاش ہے زندگی میں ایک مرتبہ واقعہ خضر (علیہ السلام) اور موسی (علیہ السلام) ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ لازمی پڑھیے، صرف عربی پڑھ کے قرآن بند کرتے ہماری آدھی زندگی گزار گئی لیکن کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ قرآن کا ترجمہ یا تفسیر پڑھ کر اس میں غور و فکر بھی کریں۔اللہ نے قرآن پاک اس لیے عطا فرمایا کہ ہم اس میں غور و فکر کریں اور اس سےہدایت حاصل کریں، ہدایت تب ملے گی جب ہم

غور و فکر کریں گے، اور غور و فکر تب ہی کرسکتے ہیں جب ہم اس کا ترجمہ پڑھیں گے اور صرف ترجمہ پڑھنے سے بھی آیات کی گہرائی اور واقعات کی مکمل تفصیل نہیں ملتی اس لیے ہمیں تفسیر پڑھنی پڑھتی ہے۔یہ بلکل ایسا ہے جیسے آپ ایک انگریزی اخبار پڑھ رہے ہوں اور بیچ میں کچھ ایسے الفاظ ہوں جن کا ترجمہ آپ کو معلوم نہ ہو یا کوئی ایسی لغت استعمال کی گئی ہو جس کا علم آپ کو نہ ہو تو آپ فورا ڈکشنری میں ان الفاظ کی معنی تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ وہاں بھی نہ ملے تو کسی ماہر استاد سے رجوع کرتے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کی کچھ آیات سمجھ نہ آنے پر ہمیں ترجمہ و تفیسر پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ترجمہ تفسیر سمجھ نہ آنے پر کسی عالم دین سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مگر افسوس ہم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کبھی کسی عالم دین سے اس نیک معاملے میں رجوع کیا ہو۔واقعہ خضر (علیہ السلام) اور

سیدنا موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) ہماری نوجوان نسل سے تقریباََ مکمل غائب کردیا گیا ہے، نہ کسی تعلیمی نصاب میں شامل ہے نہ ہی والدین اپنے بچوں کو بتاتے ہیں۔ افسوس ہم نے قرآن میں غور و فکر کرنا بلکل ہی چھوڑ دیا ہے۔یہ واقعہ قرآن پاک کی سورہ کہف کی آیت نمبر 60 سے شروع ہوکر 82 پر ختم ہوتا ہے۔ القرآن : “بیشک ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طرح سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لیے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے”۔ (کہف: 54

Leave a Comment