بی کیونیوز! کس نبیؑ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار ل-ا-ش-و-ں کو زندہ کر دیا؟ بنی اس-ر-ا-ئ-ی-ل کو ف-ر-ع-و-ن- کے چنگل اور غلامی سے نجات دلا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام لے آئے تھے۔ بنی اس-ر-ا-ئ-یل سرزمین مقدس ف-ل-س-ط-ین- میں آباد ہو چکے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام تیسرے نبی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے بنی اس-ر-ائ-یل کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت حزقیل علیہ السلام سے
متعلق ایک تاریخی واقع ایسا ہےجس کی وجہ سے حضرت حزقیل علیہ السلام مشہور ہوئے۔ حضرت حزقیل سے قبل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سےسرفراز فرمایا۔ آپ کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام مرتبہ نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام آئے۔ آپ ؑ کو ابن العجوز کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ ابن العجوز کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہو چکی تھی۔ آپ ذوالکفل بھی کہلائے۔ آپؑ کا لقب ذوالکفل اس لیے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو ق-ت-ل سے بچالیا تھا۔ جن کے ق-ت-ل پر ی-ہ-و-د-ی قوم آمادہ ہو گئی تھی. پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے ی-ہ-و-د-ی-و-ں کی ت-ل-و-ا-ر- سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو
ہدایت فرماتے رہے( تفسیر الصاوی)۔ حضرت حزقیل کی وجہ شہرت بننے والا واقعہ کچھ ایسے ہے کہ بنی اس-را-ئ-یل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی۔ م-و-ت کے خ-و-ف سے شہر چھوڑ کر جنگل میں جا کر رہنے لگی۔ ہوا کچھ یوں کہ طاعون کی وبا پھیل جانے سے لوگوں کی ام-و-ا-ت شروع ہو گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ –م-وت- کے خ-و-ف کی وجہ سے شہر چھوڑ کر جنگل میں جا بسے۔ اللہ تعالی کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی. چنانچہ اللہ تعالی نے ایک ع-ذ-ا-ب- کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مارکر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ “موتوا”یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھ-ی-ا-نک- چ-ی-خ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مرگئے۔ روایات کے مطابق فرشتے کی چیخ کی وجہ سے
جنگل میں آکر بسنے والی سبھی افراد لقمہ ا-ج-ل بن گئے جن کی تعداد سترہزار تھی۔ مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے ک-ف-ن و -د-ف-ن -کا کوئی انتظام نہیں کر سکے اور ان مردوں کی ل-ا-ش-ی-ں کھلے میدان میں بے گوروک-ف-ن آٹھ دن تک پڑی رہنے کے بعد سڑنے لگیں۔ جس سے بے انتہا تعفن اور بدبو پھیل گئی اور پورے جنگل اور اس کے اطراف میں یہ بدبواور تعفن پھیلنے لگا۔ لوگوں نے ان کی ل-ا-ش-و-ں کو درندوں اور ان کی بو سے خود کو محفوظ کرنے کیلئے اس جنگل کے اردگرد ایک دیوار بنا دی۔ کچھ دنوں کےبعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل سے گزر رہوا تو اپنی قوم کے لوگوں کی ل-ا-ش-ی-ں پہچان گئے اور اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس م-و-ت ناگہانی اور بے گوروک-ف-ن ل-ا-ش-و-ں- کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر آیا. آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالی کے دربار میں
دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ -م-و-ت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے. یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سےمجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے. افسوس کہ میری قوم ہ-ل-ا-ک- ہو گئی اور میں بالکل اکیلاہ رہ گیا. اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی. آپ بڑے سوز دل کےساتھ اس دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر وحی اترپڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام) آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرمادیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالی تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہو جاؤ۔ یہ سن کربکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے. پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام )آپ فرمادیجئے کہ
اے ہڈیو! تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گ-و-ش-ت- پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گ-و-ش-ت پ-و-س-ت چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی، اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خداکے حکم سے تم سب اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ. چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار ل-ا-ش-ی-ں چشم زدن میں کھڑی ہو گئیں۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آکر دوبارہ آباد ہوگئے. اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس م-و-ت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی ل-ا-ش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ -ک-ف-ن کی صورت میں ہو جاتا تھا. اور ق-ب-ر میں جس طرح ک-ف-ن میلا ہو جاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کےکپڑوں پر نمودار ہو جاتا تھا. چنانچہ یہ اثرات آج تک ان ی-ہ-و-د-یو-ں میں
پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں. ( تفسیر روح البیان ) اس واقعہ کا قران مجید میں بھی ذکرموجود ہے۔ یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بقرہ میں خداوند قدس نے اس طرح بیان فرمایا کہ :. ترجمہ، اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے م-و-ت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں(القرآن : کنزالایمان)
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2F7854%2F">logged in</a> to post a comment.