ایک دن حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہﷺ آپ کی زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا؟

ایک دن حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہﷺ آپ کی زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا؟

بی کیونیوز! ایک دن حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہﷺ آپ کی زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا؟ حضوراکرمﷺ کی والدہ نے سات دن دودھ پلایا‘ آٹھویں دن د-ش-م-ن اسلام ابو ل-ہ-ب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا‘ ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی۔ یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی‘ یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولؐ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا۔ مکہ کا دور تھا تو

ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے۔ ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے۔ ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے۔ مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابول-ہ-ب کی کنیز ثوبیہ کیلئے کپڑے اور رقم بھجواتے تھے۔ یہ ہے شریعت۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں۔ یہ ملاقات کیلئے آئیں‘ دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں‘ میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں۔ اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا۔ غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے‘ حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں‘ ف-ت-ح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی۔ ماں کے بارے

میں پوچھا‘ بتایا گیا۔ وہ انتقال فرما چکی ہیں۔ رسول اللہ ؐکی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے۔ رضاعی خالہ کو لباس‘ سواری اور سو درہم عنایت کئے۔ رضاعی بہن ش-ی-م-ا غ-ز-و-ہ حنین کے ق-ی-دی-وں میں شریک تھی۔ پتہ چلا تو انہیں بلایا‘ اپنی چادر بچھا کر بٹھایا۔ اپنے ہاں قیام کی دعوت دی‘ حضرت ش-ی-م-ا نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی۔ رضاعی بہن کو غلام‘ لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا۔ یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں‘ یہ ہے شریعت۔ 13 ج-ن-گ ب-د-ر کے قی-دیوں میں پڑھے لکھے ک-ف-ا-ر بھی شامل تھے‘ ان ک-ا-ف-ر-و-ں کو مسلمانوں کو پڑھانے‘ لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا‘ حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا۔ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں

خط و کتابت کرتے رہے‘ ک-ا-ف-ر-و-ں کا ایک شاعر تھا‘ سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ا-ش-ت-ع-ا-ل انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا‘ یہ ج-ن-گ ب-د-ر میں گ-ر-ف-ت-ا-ر ہوا‘ سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا‘ حضرت عمرؓ نے تجویز دی‘ میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں‘ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا‘ تڑپ کر فرمایا ’’ میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا‘‘سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’ مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا‘‘ اس سے پوچھا گیا ’’کیوں؟‘‘ سہیل بن عمرو نے جواب دیا ’’ میری پانچ بیٹیاں ہیں‘ میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں‘‘ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا‘ یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے۔ سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گ-س-ت-ا-خ رسول بھی
لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا‘ یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو ق-ید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں‘ یہ ہے شریعت۔ اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی وناصر ہو. آمین

Leave a Comment