قربانی کے لیے کن 4 شروط کا پورا ہونا ضروری ہے؟

قربانی کے لیے کن 4 شروط کا پورا ہونا ضروری ہے؟

بی کیونیوز! قربانی کے لیے 4 شروط کا ہونا ضروری ہے: پہلی شرط: وہ قربانی بھیمۃ الانعام میں سے ہو جوکہ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری ہیں۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ  (الحج – 34) اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔

اور بھیمۃ الانعام سے مراد اونٹ گائے بھیڑ بکری ہيں۔ عرب کے ہاں بھی یہی معروف ہے اورحسن، قتادہ نے بھی یہی کہا ہے۔ دوسری شرط: قربانی کا جانور شرعی محدود عمرکا ہونا ضروری ہے، وہ اس طرح کہ بھيڑ کی نسل میں جذعہ یا پھر اس کے علاوہ میں سے ثنیہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ نبی ﷺکا فرمان ہے: مسنہ ( یعنی دودانت والا ) کے علاوہ کوئی اورذ-بح نہ کرو لیکن اگر تمہیں مسنہ نہ ملے توبھيڑ کا جذعہ ذب-ح کرلو ) صحیح مسلم۔ مسنہ ثنیہ اوراس سے اوپروالی عمر کا ہوتا ہے اورجذعہ اس سے کم عمر کا۔ لہٰذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تووہ ثنیہ کہلائے گا۔ گائے کی عمر دوبرس ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گی۔ بکری جب ایک برس کی ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گی۔ اورجذعہ ایک سال کے جانور کوکہتے ہیں، لہٰذا اونٹ گائے اوربکری میں ثنیہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی نہیں ہوگی،

اوراسی طرح بھيڑ میں سے جذعہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی صحیح نہيں ہوگی۔ تیسری شرط: قربانی کا جانورچار عیوب سے پاک ہونا چاہیے: 1. آنکھ میں واضح اورظاہر عیب: یعنی جس کی آنکھ بہہ چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح باہر نکلی ہوئي ہو ، یا پھر آنکھ مکمل اورساری سفید ہوجواس کے بھینگے پن پرواضح دلالت کرتا ہے۔ 2. واضح بیمار جانور: اس سے مراد وہ بیماریاں ہیں جوجانوروں پرظاہرہوتی ہیں مثلا وہ بخار جس کی بنا پرجانور چرنا ہی ختم کردیتا ہے اوراس کے چرنے کی چاہت ہی ختم ہوجاتی ہے، اوراسی طرح واضح اورظاہرخارش جواس کے گوشت کوخراب کردینے والی ہو، یااس کی صحت پراثرانداز ہورہی ہو ، اورگہرا زخم جواس کی صحت پراثرانداز ہوتا ہو وغیرہ دوسری بیماریاں ۔ 3. واضح طورپرپایا جانے والا لنگڑا پن : وہ لنگڑا پن جواسے سیدھا اورصحیح چلنے سے

روکے اورمشکل سے دوچار کرے۔ 4. گودے کوزائل کرنے والی کمزوری: کیونکہ نبیﷺسے جب یہ پوچھا گيا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے صاف ہونا چاہیے۔ تونبیﷺنے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکےفرمایا: چارعیوب سے: وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو، اورآنکھ کے عیب والا جانورجس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، اوربیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اوروہ کمزور وضعیف جانور جس کا گودا ہی نہ ہو )۔اسے امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے موطا میں براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے۔ اورسنن میں براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے وہ بیان کرتے ہيں کہ نبیﷺہمارے اندر کھڑے ہوئے اورفرمانے لگے: (چارقسم کے جانور قربانی میں جائز نہيں ) اوراسی طرح حدیث ذکر کی ہے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں

اسے صحیح قرار دیا ہے ، دیکھیں حدیث نمبر ( 1148 ) ۔ لھٰذا یہ چارعیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پرقربانی نہيں ہوتی ، اوران چارعیوب کے ساتھ اس طرح کے اوربھی عیوب ملحق ہوتے ہیں یا وہ عیوب جواس سے بھی شدید ہوں توان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہيں ہوتی، ہم انہيں ذيل میں ذکر کرتے ہیں: 1. اندھا پن وہ جانور جس کی آنکھوں سے نظرہی نہ آتا ہو۔ 2. وہ جانورجسنے اپنی طاقت سےزيادہ چر لیا ہو اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ صحج نہیں ہوجاتا اوراس سے خطرہ نہيں ٹل جاتا۔ 3. وہ جانور جسےجننے میں کوئی مشکل درپیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہوجائے۔ 4. زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہوگلا گھٹ کر یا بلندی سے نيچے گر کر یا اسی طرح کسی اوروجہ سے اس وقت تک ایسے جانورکی قربانی نہیں ہوسکتی جب تک

کہ اس سے خطرہ زائل نہيں ہوجاتا ۔ 5. کسی آفت کی وجہ سے چلنے کی سکت نہ رکھنے والا جانور ۔ 6. اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ چوتھی شرط: وہ جانور قربانی کرنے والی کی ملکیت ہو یا پھر شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو۔ لہٰذا جوجانورملکیت میں نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں، مثلا غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اورغلط دعوے سے لیا گيا جانور، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کے ساتھ اس کا تقرب حاصل نہيں ہوسکتا۔ اورجب عادتا قربانی ہوتی ہواورنہ کرنے سے یتیم کودل آزاری ہوتی ہو تویتیم کےلیے اس کے مال سے والی کی جانب سے قربانی کرنا صحیح ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی وناصر ہو. آمین

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights