سیاہ تاریک رات میں صرف دو مردوں کی گفتگو کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ

اگر میں آج ان کے ساتھ ہوتا تو ضرور مر چکا ہوتا

بی کیونیوز! سیاہ تاریک رات میں صرف دو مردوں کی گفتگو کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ وہاں دو مرد نہیں بلکہ تین مرد موجود ہیں۔ تینوں میں سے ایک نے کپڑوں کی گھٹلی پکڑی ہوئی تھی۔ دو مسلسل کچھ بول رہے تھے مگر ایک خاموش دم سادھے چلتا جا رہا تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کا دھیان کسی اور طرف ہے۔ ان کے قدموں کے آواز کے ساتھ ساتھ پائل کی بھی آواز

پیدا ہو رہی تھی جو کہ کندھے کے پیچھے موجود گھٹلی سے آ رہی تھی۔ وہ تینوں چلتے ہوئے ایک ق-ب-رس-ت-ان کی طرف آئے۔ اور ایک مخصوص ق-ب-ر کے پاس پہنچ کر بیٹھ گئے ایک نے گھٹلی کھولی تو کپڑوں کے درمیان موجود بےشمار سونے کے زیور اس اندھیری رات میں چمکنے لگے۔ ان میں سے ایک نے کہا چلو جلدی یہ سارا سونا زمین میں دفن کر دو اگر صبح تک کسی نے دیکھ لیا تو مصیبت آ جائے گی۔ جو دونوں مسلسل بات کر رہے تھے انہوں نے اٹھ کر گڑھا کھودنا شروع کر دیا جب کہ تیسرا خاموش بندہ اب بھی خاموشی اختیار کیے بیٹھا رہا ان دونوں میں سے ایک نے اسے جھنجھوڑا اور کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں جب سے تم سنار کے گھر سے نکلے ہو تب سے تم خاموش ہی ہو کچھ کہہ نہیں رہے۔ وہ بولا میں نے سنار کے گھر ایک عجیب بات دیکھی اور محسوس کی۔ اس نے اپنے گھر میں کوئی باڈی گارڈ نہیں رکھا تھا جو اس کے مال کی حفاظت کرتا جتنے وقت تک ہم اس کا کمایا ہوا مال لوٹ رہے تھے اتنے وقت تک وہ سکون سے سوتا رہا۔ اور تو اور اس نے تجوریوں کی چابیاں بھی لگا رکھی تھیں۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے اس نے اپنے مال کی حفاظت کے لیے کسے چنا ہوگا۔ دیکھو وہ اپنا کمایا ہوا مال رکھ کر سکون سے سو رہا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں دوسروں کا کل سرمایہ لوٹ کر اسے زمین میں دفن کر دیتے ہیں نہ خود استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنا بوجھ دن بہ دن بڑھا رہے ہیں نہ ہمیں راتوں کو نیند میسر ہے نہ دن کو سکون۔ ہم در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔ ہم دو پل سکون سے اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں گزار سکتے۔ ہم ہر دفعہ بلی کی طرح گھر بدلتے

نظر آتے رہتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں آنے کا ڈر ہمیں سکون سے سونے نہیں دیتا۔ کیا یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی؟ نہ اس مال کو ہم استعمال کرتے ہیں نہ یہ مال ہمیں سکون کی زندگی میسر کر رہا ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ہم چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے دن میں دو وقت کی روٹیاں ملتی اور ساتھ میں سکون و راحت اور خوشی بھی۔ اس کی بات سن کر دونوں ساتھی بولے تم کہہ تو ٹھیک رہے ہو۔ وہ پھر سے ان سے بولا ہمیں یہ سنار کا سارا مال اسے لوٹا کر ایک نئی زندگی شروع کر دینی چاہیے۔ ان دونوں نے اس کی بات سن کر کہا کہ پاگل ہو گئے ہو اتنا مال ہاتھ لگا ہے اور اب تم چاہتے ہو کہ واپس غربت کی زندگی گزاریں نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ٹھیک ہے تو آج سے تم لوگوں کے اور میرے راستے الگ ہو گئے ۔۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا راتوں رات اس نے بیوی کو ساتھ لیا اور شہر چھوڑ کر چلا گیا۔ نئے شہر میں کوئی اسے جانتا نہیں تھا اس نے کسی کے ہاں ملازمت شروع کی۔۔ تنخواہ کچھ خاص نہ تھی مگر سکون بھری زندگی سے وہ خوش رہنے لگا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ اس نے دوبارہ کبھی پلٹ کر اپنے چور دوستوں کی خبر نہ لی ایک دن وہ دکان میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ خبر پڑھ کر اس کی آنکھیں نم ہوئی اخبار میں اس کے دونوں چور دوستوں کی تصویر نشر کی ہوئی تھی اور اوپر لکھا تھا کہ شہر کے دو بڑے چور کافی وقتوں کے بعد پولیس کے ہاتھ لگے اور موقع واردات میں ہی ہ-ل-ا-ک ہو گئے۔۔ وہ یہ پڑھ کر رونے لگا اگر اس دن وہ اس برے کام سے پیچھے نہ ہٹتا تو آج ان دونوں کے ساتھ اس کی بھی تصویر موجود ہوتی۔ ناظرین ہر بڑے کام کا اختتام برا ہی نکلتا ہے۔۔!!

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights