بی کیو نیوز! تمام خوبیاں اور کمالات اللہ تعالٰی کی ذات میں موجود ہیں۔ اور ہر بات جس میں نقص یا نقصان یا کسی دوسرے کا حاجت مند ہونا لازم آئے اللہ عزوجل کے لئے محال و ناممکن ہے جیسے یہ کہنا کہ نعوذبااللہ ” اللہ تعالٰی ج-ھ-و-ٹ بول سکتا ہے. اس مقدس، پاک اور بےعیب ذات کو عیبی بتانا درحقیقت اللہ تعالٰی کا انکار ہے۔خوب یاد رکھیے کہ ہر عیب اللہ تعالٰی کے لئے محال ہے اور
اللہ تعالٰی ہر محال سے پاک ہے۔ صفاتِ باری تعالٰی ہے۔ اللہ تعالٰی کی تمام صفات اس کی شان کے مطابق ہیں، بیشک وہ سنتا ہے، دیکھتا ہےکلام کر سکتا ہے ارادہ کر سکتا ہے. مگر وہ ہماری طرح دیکھنے کے لئے آنکھ، سننے کے لئے کان، کلام کے لئے زبان اور ارادہ کرنے کے لئے ذہن کا محتاج نہیں کیونکہ یہ سب ا-ج-س-ام- ہیں اور وہ ا-ج-سا-م- اور زمان و مکان سے پاک ہے نیز اس کا کلام، آواز و الفاظ سے بھی پاک ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاں ایسے الفاظ آتے ہیں وہ بظاہر ج-س-م پر دلالت کرتے ہیں جیسے ید، وجھہ، استوا وغیرہ۔ ان کا ظاہری معنی لینا گمراہی و بد مذہبی ہے۔ ایسے متشابہ الفاظ کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان کا ظاہری معنی رب تعالٰی کے حق میں محال ہے۔ مثال کے طورپر، یَدٌ کی تاویل قدرت سے وجھہ کی ذات اور استواء کی
غلبہ و توجہ سے کی جاتی ہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ بلا ضرورت تاویل کرنے کی بجائے ان کے حق ہونے پر یقین رکھے۔ ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ یَدٌ حق ہے، استواء، حق ہے مگر اس کا یَدٌ مخلوق کا سا یَدٌ نہیں اور اس کا استوا مخلوق کا سا استواء نہیں۔ مثال کے طورپر، یَدٌ کی تاویل قدرت سے وجھہ کی ذات اور استواء کی غلبہ و توجہ سے کی جاتی ہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ بلا ضرورت تاویل کرنے کی بجائے ان کے حق ہونے پر یقین رکھے۔ ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ یَدٌ حق ہے، استواء، حق ہے مگر اس کا یَدٌ مخلوق کا سا یَدٌ نہیں اور اس کا استوا مخلوق کا سا استواء نہیں۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F132">logged in</a> to post a comment.