ناظرین ۔۔۔ بنگلہ دیش میں پیر سے قبل لوگ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔۔ کہ ساڑھے 15 برس برسرِاقتدار رہنے والی وزیراعظم اس طرح ملک سے چلی جائیں گی ۔۔ اور وزیراعظم بھی وہ جسے ایک دور میں لوگ ’خاتونِ آہن‘ کہا کرتے تھے۔۔
ناظرین ۔۔۔ مختلف ذرائع کا یہ دعویٰ ہے ۔۔۔ کہ حسینہ واجد کے دور اقتدار میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، نریندر مودی اور حسینہ واجد نے مل کر بنگلہ دیش میں لوگوں کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے زہر بھرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے ۔۔۔ اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ آمریت پسند حسینہ واجد کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی،۔۔ انگلینڈ سیاسی پناہ دینے سے گریزاں ہے،۔۔ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ امریکہ نے حسینہ واجد کا ویزا منسوخ کر دیا ہے،۔۔
شیخ مجیب الرحمٰن
ناظرین ۔۔۔ بتایا جاتا ہے ۔۔۔ کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسموں کو گرایا جا رہا ہے،۔۔ نیو یارک میں بھی بنگلہ دیشی مظاہرین نے دھاوا بول کر شیخ مجیب الرحمٰن کا پورٹریٹ اتار دیا ہے،۔۔ جماعت اسلامی کے سینکڑوں قیدیوں کو رہائی مل رہی ہے۔۔ فوج میں اعلی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں،۔۔ پارلیمنٹ تحلیل ہو چکی ہے،۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ واجد بھارت نواز تھیں ۔۔ اور بھارت بھی انہیں خاندانی خدمات کے عوض اہمیت دیتا رہا ہے۔۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا ۔۔۔ کہ بنگلہ دیش کے لاکھوں مظاہرین کی یہ نفرت بنیادی طور پر بھارت سے بھی نفرت کا اظہار ہے۔۔
دوسری جانب بھارت نے بنگلہ دیش کی فوج سے رابطہ کر کے مدد کی پیشکش کی ہے۔۔ حالانکہ شیخ حسینہ واجد کی مخالفت بھارت کی پالیسیوں سے نفرت کا ہی اظہار ہے۔۔ یہ عوامی غصہ اور نفرت ان اقدامات کے نتیجے میں ہے ۔۔ جب حسینہ واجد نے طاقت اور اقتدار کے زعم میں مظاہرین کو رضا کار کہا،۔۔ یاد رکھیں ۔۔ رضا کار انہیں کہا جاتا ہے جنہوں نے انیس سو اکہتر میں پاک فوج کے ساتھ تعاون کیا تھا۔۔۔ حالانکہ پاکستان توڑنے کی سازش کا حصہ بننے والوں کے نام پر آج تک حسینہ واجد حکومت میں رہتے ہوئے سیاسی مقاصد کے تحت قانون سازی کرتی رہیں ۔۔ اور لوگوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔۔ لیکن عوامی مظاہروں نے آخرکار حسینہ واجد کو گھٹنے ٹیکنے اور ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔۔
ناظرین ۔۔۔ یاد رکھیں ۔۔۔ پاکستان دشمنی اور بھارت کے ساتھ دوستی میں اس خاندان نے تمام حدود کو عبور کیا ہے۔۔ اگرچہ لوگ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں اور شیخ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار کے واقعے کو مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ لیکن اس کے مختلف پہلو ہیں ۔۔۔
ناظرین ۔۔ یاد رکھیں ۔۔۔ اس خاندان نے پاکستان کو توڑنے اور متحدہ پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔ تاریخ گواہ ہے ۔۔۔ کہ بھارت نے شیخ مجیب الرحمٰن کا ساتھ دیا اور ہمارے بزرگوں کی قربانیوں سے حاصل ہونے والا ملک توڑنے کے لیے کام کیا تھا۔۔
ناظرین ۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ شیخ مجیب الرحمٰن کا جو انجام ہوا تھا ۔۔ حسینہ واجد کی حکومت کا اختتام اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔۔
یاد رکھیں ۔۔۔ جو شخص کسی مقصد سے ہٹتا ہے، شہیدوں کے خون کا سودا کرتا ہے ، غیروں کا ساتھی بنتا ہے ۔۔ اپنے لوگوں سے دھوکہ کرتا ہے ، اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو شیخ حسینہ واجد اور ان کے والد کا ہوا تھا ۔۔۔ جس شخص نے اس ملک کی بنیادوں کے ساتھ ناانصافی اور بے وفائی کی ہے ۔۔ وہ سب کردار سب کے سامنے ہیں۔۔
مکافاتِ عمل
ناظرین ۔۔۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ۔۔۔ اور ظلم کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔۔۔ اگر حسینہ واجد اپنے باپ کے نقشِ قدم پر نہ چلتی ۔۔ بلکہ ملک کے ساتھ وفاداری نبھاتی، بزرگوں اور شہداء کی عظیم قربانیوں کو یاد رکھتی تو شاید اس کو یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا۔۔۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ ۔۔۔۔ اس کے مناظر دنیا دیکھ رہی ہے ۔۔۔ کہ کیسے شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے کو توڑا گیا ۔۔۔ کیسے لوگوں نے اس خاندان سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔۔۔ ناظرین۔۔ انیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد حسینہ واجد کو ملنے والی یہ سزا باقی ممالک کے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ حسینہ واجد کے خلاف تحریک چلانے والے کون تھے؟۔۔ یہ تحریک کیوں چلائی گئی؟۔۔ اور بنگلہ دیش میں اس بغاوت سے پہلے کب کب بغاوت ہوئی ۔۔ تمام تر تفصیلات ویڈیو میں شامل کریں گے۔۔۔۔ ویڈیو کو آپ نے سکپ کرنے کی کوشش نہیں کرنی ۔۔ تاکہ مکمل حقائق سے آپ آگاہ ہو سکیں۔۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ ذرائع کا کہنا ہے ۔۔ کہ پیر کو بنگلہ دیش کے وزیراعظم ہاؤس سے شیخ حسینہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ کی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا روانگی سے قبل اتوار کی رات اور پیر کی صبح بھی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوتی رہی۔۔ ذرائع کے مطابق ۔۔ اتوار کو ملک بھر میں کوٹہ مخالف تحریک کے مظاہرین اور عوامی لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئے ۔۔ جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔۔
اتوار کی دوپہر عوامی لیگ کے کچھ سینیئر رہنماؤں اور مشیروں نے شیخ حسینہ کو مطلع کیا کہ حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں ۔۔ لیکن وزیراعظم یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھیں۔۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کو طاقت کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے ۔۔ لیکن پھر سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام نے انھیں یہ تاثر دیا کہ اب صورتحال کو سنبھالا نہیں جا سکتا۔۔ اور یہی وہ وقت تھا جب وہ ذہنی طور پر مستعفی ہونے کے لیے تیار ہوئیں ۔۔ شیخ حسینہ کے بیٹے، سجیب واجد نے میڈیا ذرائع کو بتایا کہ ان کی والدہ اتوار سے ہی استعفیٰ دینے کا سوچ رہی تھیں۔۔
البتہ یہ ان کی مجبوری بن چکی تھی ۔۔۔ جس کی وجہ سے حسینہ واجد نے استعفیٰ کا اور ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔ اور حسینہ واجد کو یہ فیصلہ ہنگامی طور پر کرنا پڑا۔۔۔ جس کی کسی کو خبر نہ تھی ۔۔۔ اس بارے میں صرف سپیشل سکیورٹی فورس، پریذیڈنٹ گارڈ رجمنٹ اور آرمی ہیڈکوارٹر میں کچھ سینیئر فوجی افسران ہی جانتے تھے۔۔ کہ شیخ حسینہ نے استعفیٰ کے خط پر کب دستخط کیے اور وہ کب ہیلی کاپٹر میں سوار کر ملک سے چلی گئیں۔۔ اور یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقے سے کیا گیا۔۔
ناظرین ۔۔۔ ظلم کرنے والوں اور خود کو بڑی طاقت سمجھنے والوں کا انجام یہی ہوا کرتا ہے ۔۔۔ کہ ان کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی ۔۔۔ اور ان کو ذلیل ہو کر اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔۔ ظالموں کی عزت کو اللہ تعالیٰ ایک پل میں ذلت میں تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔
ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ پیر کی صبح گیارہ بجے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے روانہ ہوئیں۔۔ اس وقت ان کی منزل انڈیا کی ریاست تریپورہ میں اگرتلہ تھی۔۔ وہاں اترنے کے بعد شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ کو انڈین فضائیہ کے خصوصی طیارے سے دارالحکومت دہلی پہنچا دیا گیا۔۔
لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ
ذرائع کا کہنا ہے ۔۔۔۔ کہ شیخ حسینہ ‘دونوں آپشن’ کھلے رکھنا چاہتی تھیں ۔۔ اور ان کا خیال تھا کہ اگر ‘لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ’ پروگرام کو طاقت سے روکا جا سکتا ہے ۔۔ تو وہ استعفیٰ نہیں دیں گی تاہم اس کوشش کے ناکام ہونے کی صورت میں ملک چھوڑنے کی بھی تیاری کی گئی تھی ۔۔ یعنی طاقت کے ذریعے آخری دم تک اقتدار میں رہنے کی کوشش بھی جاری رہی ۔۔ لیکن فوج مزید جانی نقصان نہیں چاہتی تھی۔۔ اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں عام لوگ اور مظاہرین فوج کے سپاہیوں اور افسران کے ساتھ گھلتے ملتے دکھائی دئیے
اور بظاہر اسی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فوج کے اعلیٰ افسران نے محسوس کیا کہ حالات حکمرانوں کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق شیخ حسینہ نے پیر کی صبح پولیس اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔۔ ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شیخ حسینہ نے اس بات پر اپنا غصہ ظاہر کیا ۔۔ کہ سکیورٹی فورسز صورتحال کو سنبھالنے میں کامیاب کیوں نہیں ہیں۔۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں پولیس کے سربراہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔۔ کہ پولیس کے لیے زیادہ دیر تک اتنی سخت پوزیشن برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب تک لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور دیگر علاقوں میں سڑکوں پر جمع ہو چکے تھے۔۔ ایک سینیئر فوجی اہلکار نے بھی شیخ حسینہ کو مطلع کیا تھا کہ لوگوں کو زیادہ دیر تک نہیں روکا جا سکتا۔۔ اور وہ وزیراعظم ہاؤس کا رخ کریں گے اور اس صورت میں شیخ حسینہ کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔۔
ذرائع کے مطابق ،، پیر کی صبح سے ہی گنوبھن کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو پولیس اور فوج نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔۔ اعلیٰ فوجی حکام کے مطابق یہ انتظام اس لیے کیا گیا تھا تاکہ شیخ حسینہ تیجگاؤں کے ہوائی اڈے تک بحفاظت پہنچ سکیں۔۔ دوسری جانب صبح نو بجے کے قریب ملک میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک انٹرنیٹ بند رہا۔۔ یہ انتظام بھی بظاہر اس لیے کیا گیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حرکات سے متعلق کوئی خبر سوشل میڈیا پر نہ پھیلے۔۔ البتہ شیخ حسینہ کے ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے کے بعد انٹرنیٹ کنکشن فعال کر دیا گیا تھا۔۔۔
ناظرین آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ بنگلہ دیشی حکام کے مطابق ۔۔ انڈیا سے پہلے ہی شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بارے میں رابطہ کر لیا گیا تھا ۔۔ اور انڈیا کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر وہ بنگلہ دیش سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اگرتلہ پہنچ سکتی ہیں ۔۔ تو وہاں سے انھیں دہلی لے جایا جائے گا۔
ناظرین ۔۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے بتایا کہ ان کی والدہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لیکن اہلخانہ ان کے تحفظ کے بارے میں فکر مند تھے ۔۔ اور اسی لیے گھر والوں نے اصرار کیا کہ انھیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں جانا چاہیے۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بنگلہ دیش چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو گئی تھیں ۔۔ اور اس وقت بھی وہ انڈیا میں ہی ہیں۔۔ ذرائع کے مطابق ۔۔ دہلی کے قریب ہندن ایئربیس سے انھیں دہلی کے مضافات میں غازی آباد میں نیم فوجی گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا ہے۔۔
ناظرین ۔۔۔ ذرائع کا کہنا ہے ۔۔۔ کہ حسینہ واجد کے انڈیا پہنچنے پر حکومت کی کابینہ کمیٹی برائے سکیورٹی کی میٹنگ پیر کو آدھی رات کو دہلی میں بلائی گئی۔۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اجلاس کی صدارت کی۔۔ وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ بھی وہاں موجود تھے۔۔ ملاقات میں بنگلہ دیش کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔۔ تاہم ملاقات کے بعد کوئی بیان نہیں دیا گیا ۔۔اور نہ ہی کوئی پریس ریلیز سامنے آئی۔۔
اس کے علاوہ منگل کی صبح بھی دہلی میں پارلیمنٹ میں ایک آل پارٹی میٹنگ ہوئی۔۔ وزیر خارجہ نے مختلف پارٹیوں کے ارکان پارلیمان کے سامنے صورتحال کی تفصیلات بتائیں۔۔ انھوں نے کہا کہ حکومت صحیح وقت پر درست قدم اٹھائے گی۔۔ البتہ اس ملاقات میں انڈین ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا ۔۔ کہ حکومت نے شیخ حسینہ سے ابتدائی بات چیت کی ہے۔ انھوں نے یہ کہا کہ انڈیا انھیں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے مزید وقت دینا چاہتا ہے۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ جہاں تک یہ سوال ہے ۔۔۔۔ کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی اگلی منزل کہاں ہے، یہ تاحال واضح نہیں ہے۔۔۔ پہلے یہ افواہ تھی کہ وہ انڈیا سے لندن جا رہی ہیں۔۔۔ لیکن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان کی اگلی منزل ابھی طے ہونا باقی ہے۔۔ اس لیے شیخ حسینہ فی الحال انڈیا میں ہی رہیں گی۔۔ لیکن انھیں کب تک انڈیا میں رہنا پڑے گا یہ بھی واضح نہیں ہے۔۔
ناظرین ۔۔۔ یہ تھا حسینہ واجد کی حکومت کے گرنے کے حوالے سے مختصر تبصرہ۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ بنگلہ دیش میں بغاوتوں اور شورشوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔۔ اس کی ٹائم لائن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلی بغاوت حسینہ واجد کے والد اور ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کیخلاف ہوئی تھی۔۔۔
آئیے آپ کو مختصراً ان بغاوتوں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔۔۔ تاکہ آپ کو موجودہ حالات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔۔۔
ناظرین ۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔ کہ جس سال شیخ مجیب الرحمان کے خلاف بغاوت ہوئی تھی۔۔۔ اسی سال میں مزید دو اور بغاوتیں ہوئیں ۔۔ جن کے نتیجے میں نومبر میں جنرل ضیا الرحمٰن نے اقتدارسنبھال لیا تھا ۔۔ 1981 میں جنرل ضیا الرحمٰن کو چٹاگانگ میں سرکاری گیسٹ ہائوس کے اندر قتل کر دیا تھا۔۔
یہ کارروائی فوجی افسران کے ایک گروپ نے کی تھی۔۔ اسی طرح 1982 میں جنرل ضیاالرحمٰن کے جانشین عبدالستار کو فوج نے جنرل محمد ارشاد کی فوجی بغاوت کے ذریعے نکال دیا تھا،۔۔ جنرل ارشاد نے مارشل لا منتظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور بعد میں صدر بن گیا تھا۔۔۔۔
اس کے بعد 2007 میں آرمی چیف نے پھر ایک بغاوت کی اور اس نے دو سالہ عبوری حکومت بنائی جس کے بعد 2009 میں شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں۔۔۔ 2009 میں کم تنخواہوں پر بغاوت کرنے والے نیم فوجی دستوں نے ڈھاکا میں 70 افراد کو قتل کر دیا تھا ۔۔ جن میں زیادہ تر فوجی افسران تھے۔۔
یہ غدر درجن بھر شہروں تک پھیل گیا تھا ۔۔۔ اور 6 دن جاری رہا تھا ۔۔۔ جس کے بعد نیم فوجی دستوں نے مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے نتیجے میں ہتھیار ڈال دئیے تھے۔۔۔
اس کے بعد 2012 میں بنگلہ دیشی فوج کے بقول اس نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی جانب سے شریعہ انقلاب لانے کیلیے بغاوت ناکام بنا دی تھی ۔۔۔ اور اب 2024 میں موجودہ بغاوت کی وجہ سے حسینہ واجد کو استعفیٰ دینا پڑا ہے ۔۔۔۔ جس کے بارے میں بنگلہ دیشی آرمی چیف وقار الزماں نے بتایا ہے۔۔ کہ حسینہ واجد نے کوٹا مخالف احتجاج کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ ملک میں ہفتوں پر محیط پُرتشدد مظاہروں کے بعد بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے اور ملک چھوڑ کر انڈیا گئی ہیں۔۔۔۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے ۔۔۔ کہ ایک طرف 76 سالہ رہنما شیخ حسینہ واجد کا ہیلی کاپٹر انڈیا میں پہنچا اور دوسری جانب ڈھاکہ میں ان کی سرکاری رہائش گاہ میں ہزاروں احتجاجی مظاہرین گُھس گئے۔۔۔۔
ناظرین ۔۔ یاد رہے کہ ۔۔ شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی ہے۔۔ اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما ہیں۔۔۔ شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے ۔۔ لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔۔۔
ناظرین ۔۔ یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے۔۔ کہ آخر شیخ حسینہ کیسے طاقتور رہنما بنیں؟۔۔۔ تو آئیے آپ کو اس کا مختصر پسِ منظر بتاتے ہیں۔۔۔
مشرقی بنگال
ناظرین ۔۔۔ شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں ۔۔ اور سیاست ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔۔ وہ قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں، جنھیں بنگلہ دیش کا ’بنگلہ بندھو‘ یعنی ’بابائے قوم‘ قرار دیا جاتا ہے۔۔ ان کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا ۔۔ اور وہ 1971 میں ملک کے پہلے صدر بنے تھے۔۔
اس وقت سے ہی شیخ حسینہ نے خود کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما کے طور پر منوا لیا تھا۔۔۔ اور سنہ 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا۔۔ اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے۔۔ کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔۔ انھوں نے اس دوران انڈیا میں جلاوطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں ۔۔ اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔۔۔
انھوں نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔۔۔ اس تحریک نے شیخ حسینہ کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا اور وہ ایک قومی رہنما بن کر اُبھریں۔۔
آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ واجد 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔۔ اس دوران انھوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کی شیئرنگ کی ڈیل طے کی ۔۔ اور ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔۔ اور سنہ 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں ۔۔ اور انھیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔۔
ناظرین ۔۔۔ یاد رہے کہ ۔۔۔ بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو رہنماؤں کی لڑائی کے سبب نہ صرف ملک میں بم دھماکے ہوئے،۔۔ بلکہ لوگ لاپتہ ہوئے اور لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہونا ملک میں معمول بنا رہا۔۔
ناظرین ۔۔۔ سنہ 2009 میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔۔
آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں ۔۔۔ اور ان پر حملے بھی ہوئے۔۔ سنہ 2004 میں ایک ایسے ہی حملے کے سبب ان کی قوتِ گویائی تک متاثر ہوئی تھی۔۔ ذرائع بتاتے ہیں ۔۔ کہ کئی مرتبہ انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور مبینہ کرپشن کے سبب ان پر عدالتی مقدمات بھی قائم کیے گئے۔۔
ناظرین ۔۔۔ جہاں پر حسینہ واجد پر الزامات لگتے رہے ہیں۔۔۔ وہیں پر ان کے سیاسی کریئر میں کچھ کامیابیاں بھی ہیں۔۔ جن کا ذکر ضروری ہے۔۔
ناظرین ۔۔۔ یاد رکھیں ۔۔۔ بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ غریب ممالک میں ہوتا تھا۔۔ لیکن سنہ 2009 کے بعد شیخ حسینہ کی قیادت میں ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔۔ پھر اس کا شمار خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں میں ہونے لگا، اور بتایا جاتا ہے۔۔ کہ بنگلہ دیش کی ترقی کی رفتار انڈیا سے بھی تیز ہے۔۔
ورلڈ بینک کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے باہر آئے ہیں۔۔ اور یہ دور حسینہ واجد ہی کا دورِ حکومت ہے۔۔۔
ذرائع کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی ۔۔ اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی ملی۔۔ کہا جاتا ہے ۔۔ کہ ملک کی اپنی دولت، قرضوں اور غیر ملکی اداروں سے معاونت کا استعمال کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے،۔۔ جن میں دو ارب 90 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا ’پدما برج‘ بھی شامل ہے۔۔
ناظرین ۔۔۔ حسینہ واجد ان مثبت کاموں کے باوجود اپنے ملک میں ایک متنازع شخصیت رہی ہیں۔۔۔
ملک میں حالیہ پُرتشدد مظاہرے شیخ حسینہ کے سیاسی کریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے۔۔ حالانکہ اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔۔۔ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔۔۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ان کے استعفے کے مطالبات کیے جاتے رہے ۔۔ لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی۔۔ انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو نہ صرف ’دہشتگرد‘ قرار دیا بلکہ اپیل کی کہ ’ان دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔‘۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔ کہ بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے ۔۔ تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔۔ اور سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے ۔۔ جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے۔۔
اسی وجہ سے ملک میں طلبہ اور دیگر احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ نظام متعصبانہ ہے ۔۔ اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔۔ اور رفتہ رفتہ طلبہ کا یہ احتجاج ایک حکومت مخالف ملک گیر تحریک میں بدل گیا ۔۔۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بنگلہ دیش میں مہنگائی بڑھ گئی تھی،۔۔۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے تھے ۔۔۔ اور بیرونی قرضہ تقریباً دو گنا بڑھ گیا تھا۔۔۔ اور ناقدین نے یہ کہا تھا ۔۔۔ کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔۔ اور انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ۔۔۔ کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔۔۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں ۔۔ اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا ۔۔۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں ۔۔ اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔۔۔
اس کے برعکس شیخ حسینہ اور ان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔۔۔ لیکن حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی کارکنان کو حکومت مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔۔۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 کے بعد ملک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔۔
ناظرین ۔۔۔ بنگلہ دیش میں انہی الزامات کی بنیاد پر احتجاج ہوتے رہے۔۔ جو رفتہ رفتہ بڑھتے گئے۔۔ اور آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے۔۔۔
یاد رکھیں ۔۔۔ جمہوریت اصل میں وہ ہوتی ہے۔۔ جس میں حکومت عوام کی رائے اور عوام کے مطالبات کی قدر کرتی ہے ۔۔۔ اور عوام کو لے کر چلتی ہے ۔۔۔ لیکن جب حکومت عوام پر اپنے جائز اور ناجائز فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔۔ تو اس کو جمہوریت نہیں آمریت کہا جاتا ہے ۔۔۔ اور ایک وقت آتا ہے ۔۔۔ کہ عوام حکومت کے ناجائز فیصلوں سے تنگ آ کر بغاوت پر مجبور ہو جاتی ہے۔۔۔ اور یہی بنگلہ دیش میں ہوا ہے ۔۔۔
شیخ حسینہ واجد کا آمرانہ رویہ
شیخ حسینہ واجد کا آمرانہ رویہ ہی عوامی غصے اور پھر ان کی اقتدار سے محرومی کا باعث بنا ہے ۔۔۔ اور مجبوراً وہ بنگلہ دیش سے فرار ہو کر اپنے حلیف ملک بھارت فرار ہو چکی ہیں۔۔
ناظرین ۔۔۔ بتایا جاتا ہے ۔۔۔ کہ حسینہ واجد کا مظاہرین کے لیے بولا گیا ایک لفظ ان کے 16 سالہ اقتدار کے خاتمے کا سبب بنا ہے۔۔۔ یہ لفظ کیا تھا؟۔۔۔ آئیے اس بارے میں آپ کو تفصیل سے بتاتے ہیں۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔۔ کہ بنگلہ دیش کے طلبہ اور عوام ایک ماہ سے کوٹا سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج تھے ۔۔ جو آہستہ آہستہ حسینہ حکومت کے جابرانہ اور آمرانہ رویے کے سبب سول نا فرمانی اور حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہو گیا۔۔
شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ ماہ 14 جولائی کو اپنی ایک اشتعال انگیز تقریر میں اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے والے مظاہرین کو ’’رضاکار‘‘ کہا تھا ۔۔ جس کو بنگلہ دیش میں غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔
ذرائع کے مطابق ۔۔۔ عوامی لیگ کی سربراہ کا اقتدار کے گھمنڈ میں یہ لفظ ادا کرتے ہی احتجاج میں شدت آ گئی ۔۔۔ اور یہ ملک کے طول وعرض میں پھیل گیا ۔۔ جو بالآخر حسینہ واجد کے طویل اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا۔۔
ناظرین ۔۔۔ اس احتجاج میں زیادہ اہم کردار کس کا تھا؟۔۔۔ جس کی وجہ سے حسینہ واجد کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا ۔۔۔ اور اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ اس حوالے سے بتایا جاتا ہے ۔۔ کہ اس احتجاج میں طلباء کا کردار اہم تھا۔۔۔
پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ۔۔۔ کہ گزشتہ ماہ سرکاری ملازمتوں پر کوٹا سسٹم کے خلاف ملک کے تعلیمی اداروں سے اٹھنے والی احتجاجی لہر اتنی پھیلی کہ اس کا دائرہ ملک بھر میں وسیع ہو گیا اور اس کا نتیجہ حسینہ واجد کے 16 سالہ اقتدار کے خاتمے کی صورت نکلا۔۔۔
ذرائع کے مطابق ۔۔۔ اس احتجاجی تحریک کے سرخیل ڈھاکا یونیورسٹی کے تین طالبعلم ناہید اسلام، آصف محمود اور ابوبکر تھے ۔۔۔ جنہوں نے اپنے جوش وجذبے سے تحریک کو اتنا موثر بنا دیا ۔۔ کہ حسینہ واجد کو بالآخر اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔۔۔
میڈیا کے مطابق ان تینوں طالبعلموں کا تعلق عام گھروں سے ہے ۔۔ اور ان کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہیں، تاہم طلبہ حقوق کے لیے وہ جدوجہد اور مظاہرے کرتے رہے ہیں۔۔۔ گزشتہ ماہ جولائی کے وسط میں جب کوٹا سسٹم کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو اس کے کچھ دن بعد 19 جولائی کو پولیس محمد ناہید اسلام کو گھر سے اٹھا لے گئی۔۔۔
ناہید جب بازیاب ہوا تو اس کے جسم کے مختلف حصوں پر چوٹ کے نشانات تھے ۔۔ اور اس نے خود پر تشدد کا الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں کچھ لوگ آئے ۔۔ اور اسے دوست کے گھر سے اٹھا کر لے گئے۔۔۔ پھر مارا پیٹا گیا، جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو سڑک کے کنارے پڑا ہوا پایا۔۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔
ذرائع کے مطابق ۔۔۔ طالب علم کے والدین اپنے لاپتہ بیٹے کے لیے پریشان حال ڈیٹیکٹیو برانچ کے دفتر پہنچے ۔۔ اور شدید گرمی میں سارا دن وہاں انتظار کرتے رہے ۔۔ مگر انہیں کچھ معلومات نہیں دی گئیں۔۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ 26 جولائی کو دوبارہ پیش آیا۔۔ تاہم اس بار پولیس کے سراغ رساں ونگ نے ناہید اسلام، آصف محمود اور ابوبکر کو اسپتال سے گرفتار کیا ۔۔ اور اس کا جواز سیکیورٹی وجوہات کو بتایا گیا۔۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس حراست کے دوران ناہید کو لوہے کی سلاخوں سے مارا گیا۔۔ جبکہ آصف کو انجکشن لگایا گیا ۔۔ جس کے باعث وہ کئی روز تک بے ہوش رہا۔۔ دونوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان پر تحریک روکنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ۔۔۔۔
لیکن ناظرین ۔۔۔ یہ طالبعلم ریاستی جبر کے آگے نہ جھکے اور بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔۔
ناظرین ۔۔۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے ۔۔۔ کہ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اب یہ طلبہ ملک میں نئی عبوری حکومت کا خاکہ طے کر رہے ہیں۔۔ اور طلبہ تحریک کے کوآرڈینیٹر محمد ناہید اسلام نے کہا کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں عبوری حکومت کا خاکہ تیار کر لیا جائے گا۔۔۔
ناہید نے اس تحریک میں اپنی جانیں گنوانے والوں کو شہید قرار دیتے ہوئے کہا ہے ۔۔ کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف کامیاب بغاوت کو شہید طلبہ اور عام لوگوں کے لیے وقف کرتے ہیں۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ اس احتجاج کے دوران کا نعرہ تھا۔۔
“تُم کون ہم کون … رضا کار رضا کار‘‘
کہا جاتا ہے ۔۔ کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے والی طلباء تحریک میں یہ نعرہ مزاحمت کی علامت تھا۔۔ طلباء نے یہ نعرہ اُس وقت اپنایا جب حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم پر تنقید کرنے والوں پر طنز کیا تھا۔۔۔ حسینہ واجد نے کہا تھا ۔۔۔ کہ آزادی کے لئے لڑنے والوں کے پوتے پوتیوں کا کوٹہ نہیں ۔۔ بلکہ رضا کاروں کے پوتے پوتیوں کا کوٹہ ہو گا۔۔ اور پھر اس ایک لفظ کا اثر یہ ہوا ۔۔۔ کہ پوری قوم اس احتجاج میں شامل ہو گئی ۔۔۔ اور آخر نتیجہ یہ ہوا ۔۔۔ کہ حسینہ واجد کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔۔۔ ملک چھوڑ کر حسینہ واجد انڈیا گئی ہیں ۔۔۔ اور ذرائع کا کہنا ہے ۔۔ کہ اب وہ سیاسی پناہ کے لیے مختلف ممالک سے رابطے کر رہی ہیں۔۔۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے ۔۔ کہ حسینہ واجد اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ نئی دہلی پہنچیں اور وہاں سے انہوں نے برطانوی حکومت کو سیاسی پناہ کی درخواست بھیجی ہے۔۔۔ ذرائع کے مطابق شیخ حسینہ واجد کی ہمشیرہ شیخ ریحانہ برطانوی شہریت رکھتی ہیں ۔۔ اور برطانوی لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ ٹیولپ صدیق کی والدہ ہیں۔۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو تاحال برطانوی حکومت کے ردِعمل کا انتظار ہے۔۔
دوسری جانب برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے بنگلہ دیش میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔۔ اور ان واقعات کو ’المناک‘ قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’تمام فریقوں کو تشدد کے خاتمے، امن و امان کی بحالی اور انسانی جانوں کے مزید ضیاع کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے’۔۔
برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’بنگلہ دیش کے عوام اس بات کے مستحق ہیں کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے واقعات کی اقوام متحدہ کی زیرنگرانی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں’۔۔۔
لیکن آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں اور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے پر برطانیہ اور انڈیا کی حکومتوں کی جانب سے تاحال سرکاری طور پر بیان جاری نہیں کیا گیا۔۔۔
البتہ پیر کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’امریکہ نے بنگلہ دیش میں جمہوری حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے’۔۔۔ اور کہا۔۔ ‘ہم چاہتے ہیں کہ عبوری حکومت کی تشکیل جمہوری ہو اور اس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو۔۔ ہم تحمل کا مظاہرہ کرنے پر (بنگلہ دیشی) فوج کے کردار کو بھی سراہتے ہیں’۔۔۔
ناظرین ۔۔ ہم بات کر رہے تھے کہ اس تحریک میں طلباء کا کردار بہت اہم تھا۔۔۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔۔۔ کہ اس تحریک کا بنیادی کردار ناہید اسلام کون ہے۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔ کہ بنگلہ دیش میں جولائی میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی قیادت کرنے والے اس نوجوان کی بہت سی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔۔۔ سوشل میڈیا پر اپنے سر پر بنگلہ دیش کے جھنڈے والی پٹی باندھے ہوئے جس نوجوان کی تصاویر موجود ہیں۔۔۔ یہ نوجوان ناہید اسلام ہیں ۔۔ جو سوشیالوجی (شعبہ سماجیات) کے طالب علم ہیں۔۔
ذرائع کے مطابق ناہید اسلام سرکاری ملازمتوں کے لیے مخصوص کوٹے کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کے کوآرڈینیٹر ہیں۔۔ ناہید اسلام کو قومی سطح پر جولائی کے وسط میں اس وقت شہرت ملی ۔۔ جب انہیں اور ان کے ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کئی طلبہ ساتھیوں کو پولیس نے حراست میں لیا۔۔
بنگلہ دیش میں کئی ہفتے چلنے والی احتجاجی تحریک میں لگ بھگ 300 افراد ہلاک ہوئے ۔۔ جن میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ بڑی تعداد میں شامل ہیں۔۔ اس تحریک کی شدت میں کافی حد تک کمی حسینہ واجد کے استعفے اور ملک چھوڑ دینے کے بعد آئی ہے۔۔
غیر جذباتی لیکن ٹھوس انداز میں اپنی بات کرنے والے طالب علم رہنما ناہید اسلام نے کہا ہے۔۔ کہ طلبہ کسی ایسی حکومت کو قبول نہیں کریں گے ۔۔ جسے فوج کی پشت پناہی حاصل ہو۔۔ انہوں نے نئی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے لیے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کا نام تجویز کیا ہے۔۔
ناہید اسلام نے منگل کو اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا کہ ’ہماری تجویز سے ہٹ کر بننے والی کوئی بھی حکومت قابل قبول نہیں ہو گی۔‘
اسی طرح ناہید اسلام نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اس مقصد کے لیے جانیں دینے والوں کے لہو سے غداری نہیں کریں گے۔‘
ہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کی حفاظت، سماجی انصاف اور ایک نئے سیاسی اُفق کے اپنے وعدے کے مطابق نیا جمہوری بنگلہ دیش بنائیں گے۔‘
ناہید اسلام نے یقین دلایا کہ 17 کروڑ بنگالی عوام کو دوبارہ ’فاشسٹ دور‘ میں نہیں دھکیلیں گے۔۔۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ساتھی طلبہ کو ہندو اقلیت اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔۔۔
آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ ناہید اسلام 1998 میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک چھوٹا بھائی ہے ۔۔ جس کا نام نقیب اسلام ہے۔۔ ان کے والد استاد ہیں ۔۔ جبکہ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔۔۔
نقیب اسلام جغرافیہ کے طالب علم ہیں۔۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ’ناہید کی قوت برداشت غیرمعمولی ہے ۔۔۔ اور وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ملک کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘
’انہیں پولیس نے گرفتار کیا اور اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد انہیں اسی حالت میں سڑک پر پھنک دیا گیا۔۔ لیکن اس کے باوجود وہ لڑتے رہے۔۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمت نہیں ہاریں گے، ہمیں ناہید پر فخر ہے۔‘
ناظرین ۔۔۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو گی ۔۔۔ کہ پرتشدد سیاسی رجحانات پر تحقیق کرنے والی کورنیل یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سبرینا کریم نے پیر کو بنگلہ دیش کے لیے تاریخی دن قرار دیا ہے۔۔
اور انہوں نے کہا ہے۔۔۔ کہ ’میرے خیال میں جنریشن۔ زی کے زیرقیادت یہ پہلا انقلاب ہے۔‘
ناظرین ۔۔ یاد رکھیں ۔۔۔ ہر عروج کے لیے آخر زوال ہوتا ہے ۔۔۔ حسینہ واجد نے بھی 16 سال تک بنگلہ دیش پر حکومت کی ۔۔۔ اور عروج دیکھا ۔۔۔ حسینہ واجد کا یہ عروج حال ہی میں اپنے زوال کو پہنچا ہے ۔۔۔۔۔ آئیے آپ کو حسینہ واجد کے سیاسی عروج و زوال کی انوکھی داستان بتاتے ہیں۔۔۔۔ کہ یہ داستان کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پر ختم ہوئی ؟۔۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ یہ داستان اس لیے بھی انوکھی ہے ۔۔ کیوں کہ غیر متوقع طور پر اچانک یہ خبر سامنے آئی ہے۔۔۔ کہ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے ۔۔۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق پیر کو مظاہرین کی بڑی تعداد نے جب دارالحکومت ڈھاکہ میں حسینہ واجد کے محل کا رخ کیا ۔۔۔ تو اس کے کچھ وقت بعد ان کے ملک چھوڑ جانے کی خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں۔۔
مطلق العنان حسینہ واجد
ناظرین ۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔ کہ 76 سالہ مطلق العنان حسینہ واجد رواں برس جنوری میں پانچویں مرتبہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بنی تھیں ۔۔ لیکن اپوزیشن نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔۔ اس الیکشن کے بارے میں مبصرین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ آزاد انتخابات ہیں ۔۔ اور نہ ہی منصفانہ۔۔۔
البتہ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں ایسا کردار ادا کیا ۔۔۔ جسے ایک مرتبہ امریکی سیاست دان ہنری کسنجر نے ناقابل تلافی ’باکسٹ کیس‘ قرار دیا تھا۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ جہاں تک شیخ حسینہ واجد کے سیاسی عروج کی بات ہے ۔۔۔ تو آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ واجد جب 27 برس کی تھیں ۔۔ تو باغی فوجی افسروں نے 1975 میں ان کے والد اور اس وقت کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان اور ان کی والدہ اور تین بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔۔ اس وقت شیخ حسینہ بیرون ملک سفر کر رہی تھیں۔
اس واقعے کے چھ برس بعد شیخ حسینہ واجد اپنے والد کی عوامی لیگ پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے واپس آئیں۔ انہوں نے ایک دہائی تک طویل جدوجہد کی جس میں طویل عرصے تک گھر میں نظربندی بھی شامل تھی۔۔۔
حسینہ واجد نے 1990 میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کو اقتدار سے ہٹانے میں مدد کے لیے خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ساتھ فوج کا ساتھ دیا۔۔ لیکن خالدہ ضیا کے ساتھ وہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکیں۔۔ اس کے بعد ان دونوں کی مخاصمت نے بنگلہ دیش کی سیاست پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔۔
حسینہ واجد پہلی مرتبہ 1996 میں وزیراعظم بنیں ۔۔ لیکن اس کے پانچ برس بعد انتخابات میں وہ خالدہ ضیا سے ہار گئی تھیں۔۔۔
ان دونوں کو 2007 میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی بغاوت کے بعد بدعنوانی کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔۔
اس کے اگلے برس انہوں نے الیکشن لڑا جس میں حسینہ واجد نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ اس وقت سے آج تک اقتدار میں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ دور حسینہ واجد کے عروج کا دور رہا ہے ۔۔۔۔
دوسری جانب 78 سالہ خالدہ ضیا صحت کے مسائل کا شکار ہیں ۔۔ اور وہ 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد بی این پی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ہسپتال میں قید ہیں۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ۔۔ کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں گارمنٹس ایکسپورٹ انڈسٹری کا بہت زیادہ کردار ہے ۔۔ اور اس میں بڑی تعداد میں خواتین کارکن کام کرتی ہیں۔۔۔ شیخ حسینہ واجد کے حامی بنگلہ دیش کو اقتصادی عروج تک پہنچانے پر انہیں سراہتے ہیں۔۔۔
یاد رہے کہ ۔۔۔ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک بنگلہ دیش نے 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔۔ سنہ 2009 کے بعد سے اس کی شرح نمو میں سالانہ اوسطاً چھ فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا تھا ۔۔۔ معاشی ترقی کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں غربت میں کمی آئی تھی ۔۔ اور اس کے 17 کروڑ افراد میں سے 95 فیصد سے زیادہ کو اب بجلی کی سہولت حاصل ہے ۔۔ اور اس ملک نے فی کس آمدنی کے لحاظ سے 2021 میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔۔۔
ناظرین ۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔۔ کہ شیخ حسینہ واجد کو مسلم اکثریتی ملک میں اسلام پسند عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن کے لیے بھی سراہا گیا ہے ۔۔۔ جب 2016 میں پانچ بنگلہ دیشی انتہا پسندوں نے مغربی تارکین وطن میں مقبول ڈھاکہ کے ایک کیفے پر دھاوا بول کر 22 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں غصے کی لہر پیدا ہوئی تھی ۔۔۔ اور اس کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔۔۔
آپ کو مزید بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران پانچ سرکردہ اسلام پسند رہنماؤں اور حزب اختلاف کی ایک سینیئر شخصیت کو بھی پھانسی دی گئی تھی۔۔۔ ان پر الزام تھا کہ وہ سنہ 1971 کی جنگ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں۔۔۔
البتہ شیخ حسینہ واجد کے مخالفین نے ان ٹرائلز کو ایک مذاق اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر کی جانی والی کارروائی قرار دیا تھا۔۔۔
اسی طرح امریکہ نے 2021 میں بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز کی ایک ایلیٹ برانچ اور اس کے سات اعلیٰ افسران پر انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ یہ تھیں چند مثالیں حسینہ واجد کے سیاسی عروج وزوال کی ۔۔۔ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔۔۔ کہ جہاں پر حسینہ واجد کی کامیابیاں اور کارنامے موجود ہیں ۔۔۔ وہیں پر حسینہ واجد سے کوتاہیاں اور غلطیاں بھی ہوئی ہیں ۔۔۔۔ جن کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا ہے ۔۔۔ اور آج وہ اپنی عزت، اپنی حکومت، اور مقام سب کچھ گنوا بیٹھی ہیں۔۔۔
ایک موقع پر انہوں نے صحافیوں سے سوال کیا ۔۔۔ کہ ’15 برسوں میں، میں نے اس ملک کو تعمیر کیا ہے۔ میں نے عوام کے لیے کیا کچھ نہیں کِیا؟‘
ناظرین ۔۔ اس میں شک نہیں کہ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو غربت سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔۔۔ لیکن ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ عوام کے مطالبات کو وقت پر سمجھ نہ سکیں۔۔۔ اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں وقت پر کوئی فیصلہ نہ کر پائیں ۔۔۔ جس کی وجہ سے ان کا یہ عروج یکدم زوال میں بدل گیا ۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آخر کار بنگلہ دیش کی سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی 75/ 76سالہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے، یہ استعفیٰ بنگلادیش کی عوام کے دباؤ اور آرمی چیف کے الٹیمیٹم پر دیا گیا ہے ۔۔۔
آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ گوپال گنج ضلع کے تنگی پارہ میں پیدا ہونے والی شیخ حسینہ بابائے قوم شیخ مجیب الرحمٰن اور بیگم فضل النساء کے 5 بچوں میں سب سے بڑی ہیں۔۔ شیخ حسینہ واجد 1966 میں ایڈن گرلز کالج کی طلبہ یونین کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔۔ وہ ایڈن انٹرمیڈیٹ گرلز کالج چھاترا لیگ کی صدر بھی بنیں۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے ۔۔۔ کہ شیخ حسینہ نے 1969 کی عوامی بغاوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انہوں نے 1973 میں ڈھاکا یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔۔ ان کی شادی نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر محمد واجد سے ہوئی،۔۔۔ جن میں سے 2 بچے سجیب واجد جوئے اور صائمہ واجد پتول ہیں۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ ان کے سیاسی کیرئیر پر ہم پہلے ہی روشنی ڈال چکے ہیں۔۔۔ کہ کس طرح سے انہوں نے سیاست کی دنیا میں قدم رکھا۔۔۔ اور کس طرح سے سیاسی عروج کو پہنچیں۔۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ یاد رہے کہ حسینہ واجد کو انسانیت کی ماں کا لقب بھی دیا گیا تھا ۔۔۔
جب تقریباً 10 لاکھ روہنگیا میانمار کی فوج کے افراد ظلم و ستم سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش بھاگے تو بنگلہ دیش نے ان کا کھلے دل سے استقبال کیا،۔۔۔ جس کے بعد شیخ حسینہ نے دلیری سے اعلان کیا کہ اگر ہم 160 ملین کو کھانا کھلا سکتے ہیں ۔۔ تو ہم 7 لاکھ روہنگیا مہاجرین کو بھی کھانا کھلا سکتے ہیں،۔۔۔ ان کے اس اعلان پر ان کو انسانیت کی ماں کا لقب دیا گیا تھا۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ واضح رہے کہ ۔۔۔ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کی لڑکھراتی کرسی اب ٹوٹ چکی ہے ۔۔ اور عوام کی مقبول ترین لیڈر نے اپنے چند غلط فیصلوں کی بدولت عوام کے ہاتھوں ہی دباؤ میں آکر استعفیٰ دے دیا ہے۔۔۔، اور آرمی چیف کے الٹی میٹم پر ملک چھوڑ کر بھارت روانہ ہو گئی ہیں۔۔۔
اب قسمت ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلتی ہے؟۔۔۔۔ اس بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ یہاں حسینہ واجد اور اس کی جماعت کے حوالے سے آپ کو ایک عجیب حقیقت بتاتے ہیں۔۔۔۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ نے ملک میں سنہ 1972 کا سیکولر آئین دوبارہ اپنانے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔۔ جس کا مطلب تھا ۔۔ کہ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام نہیں رہے گا۔۔۔ اس حوالے سے فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا تھا۔۔۔ کہ جب ملک میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بعد ہندو برادری پر حملوں میں اضافہ ہوا تھا۔۔ اور ملک میں ہونے والے پُرتشدد واقعات میں آٹھ افراد ہلاک ہو چکے تھے ۔۔۔ ان حملوں میں سینکڑوں گھروں اور درجنوں مندروں کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ اس سے یہ انداذہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے ۔۔۔ کہ حسینہ واجد اور اس کی جماعت اسلام کے مقابلے میں ہندوؤں کو خوش کیا ۔۔ حالانکہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی دس فیصد بھی نہیں ہے۔۔۔ حسینہ واجد کی پاکستان کے ساتھ مخالفت اور دشمنی کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔۔۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ۔۔۔ اور بنگلہ دیش کا حق بنتا تھا ۔۔۔ کہ وہ پاکستان کی حمایت کرتے۔۔ لیکن حسینہ واجد اقتدار سے پہلے بھی چونکہ انڈیا میں رہ چکی تھی ۔۔۔ اس لیے اس کی حمایتیں انڈیا کے ساتھ ہی رہیں۔۔۔ اور اب استعفیٰ دینے کے بعد بھی اس نے انڈیا ہی میں پناہ لی ہے ۔۔۔۔ جس سے معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ کہ اس کا جھکاؤ ہمیشہ سے ہندوؤں کی جانب کیوں رہا ہے ۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ سنہ 1988 میں فوجی حکمراں ایچ ایم ارشاد نے اسلام کو بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب قرار دیا تھا۔۔ جبکہ سنہ 1972 کا آئین ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان نے نافذ کیا تھا۔۔۔
ناظرین ۔۔ حسینہ واجد کے بارے میں تفصیلات آپ نے ملاحظہ کی ہیں۔۔۔ اب کچھ تذکرہ کرتے ہیں، مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمان کے حوالے سے اور مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے حوالے سے۔۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ شیخ مجیب الرحمان اور مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کے تذکرہ میں چھ نکات کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔ لہٰذا آپ کو ان چھ نکات کے بارے میں تفصیل بتاتے ہیں۔۔۔ تاکہ مشرقی پاکستان کی عیلحدگی کا پسِ منظر آپ آسانی سے سمجھ سکیں۔۔۔
یاد رکھیں ۔۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔۔ اور کہا جاتا ہے ۔۔ کہ اس کی بنیاد اُن کے وہ 6 نکات بنے جو انہوں نے لاہور میں پیش کیے تھے۔۔۔
آئیے آپ کو یہ چھ نکات بتاتے ہیں ۔۔۔ جو سابقہ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے 5 فروری 1966ء کو لاہور میں پیش کیے تھے۔۔۔ وہ نکات یہ ہیں۔۔
1940ء کی قرار داد لاہور کی روشنی میں وفاق پاکستان میں ایک ایسے پارلیمارنی نظام کی ضمانت دی جائے۔۔ کہ جس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب شدہ قانون ساز اسمبلی کو بالا دستی حاصل ہو۔۔ مرکزی حکومت کے پاس صرف دو محکمے ہوں ، دفاع اور خارجی امور ۔۔ دونوں صوبوں کے لئے الگ الگ لیکن قابل تبادلہ کرنسی کا نظام ہو ۔۔۔ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو آئین میں ضمانت دی جائے کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں سرمایہ کا فرار روکا جا سکے۔۔
نیز مشرقی پاکستان کے لئے الگ الگ مالیاتی اور اقتصادی نظام وضع کئے جائیں۔۔ ان کے علاوہ مشرقی پاکستان کا اپنا بینکنگ ریزرو سسٹم (یعنی محفوظ سرمایہ کا نظام) بھی ہو۔۔ ٹیکس لگانے اور تمام تر مالیاتی وصولیوں کا اختیار مرکز کی بجائے صرف صوبوں کے پاس ہوں ۔۔ جو ایک مساوی اور مخصوص شرح سے مرکز کے اخراجات ادا کریں۔۔
ہر صوبہ ، بیرونی تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد ہو اور اپنے حساب و کتاب کا واحد حقدار ہو۔۔ جبکہ دونوں حصوں کے درمیان ملکی مصنوعات کی نقل و حمل پر کسی قسم کا ٹیکس نہ ہو۔۔ مشرقی پاکستان کو الگ فوج یا نیم فوجی دستے رکھنے کا حق ہو۔۔ تاکہ ملکی سلامتی اور آئین کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔۔۔۔
روایات بتاتی ہیں ۔۔۔ کہ بنگلہ دیش کے بانی اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگالیوں کو باور کرا دیا تھا کہ مغربی پاکستان ان کے سونار بنگلہ کا استحصال کر رہا ہے ۔۔ اور پاکستان کی معاشی ترقی صرف اور صرف مشرقی پاکستان کے وسائل یا استحصال ہی سے ہو رہی ہے۔۔ اس کے لئے پٹ سن کی درآمدات کی مثال دی جا رہی تھی۔۔۔ یاد رہے کہ ۔۔ “سونار بنگلہ” کا محاورہ بھی پٹ سن کے سنہرے ریشوں سے نکلا تھا ۔۔ جن کی پچاس کے عشرے کے آغاز ہی سے بڑی مانگ تھی۔۔
مغربی پاکستان کے سرمایہ کاروں نے 1950-51 ء میں ڈھاکہ کے نواح میں دنیا کی سب سے بڑی آدم جی جوٹ مل قائم کی تھی ۔۔ جس میں انیس ہزار سے زائد مزدور کام کرتے تھے ۔۔ لیکن چونکہ سرمایہ دار بنگالی نہیں تھے اور مالک اور مزدور کا ازلی اور ابدی امتیاز بھی تھا ۔۔ جسے تعصب ، لسانیت اور قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا ۔۔، اسی طوفان بدتمیزی میں 1954ء میں سات سو سے زائد غیر بنگالیوں کا قتل عام بھی کیا گیا تھا۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ آپ کو بتاتے چلیں ۔۔۔ کہ عام طور پر ایوبی دور حکومت کو پاکستان میں خوشحالی کا سنہری دور کہا جاتا ہے ۔۔۔ جو اس حد تک تو درست تھا کہ ملک میں پیسے کی ریل پیل تھی ۔۔، بہت سے ترقیاتی کام ہو رہے تھے، بیرونی قرضے اور سرمایہ کاری ہو رہی تھی ۔۔ اور ملکی معیشت کا گراف انتہائی قابل رشک تھا ۔۔ لیکن زمینی حقیقت یہ تھی ترقی کے تمام ثمرات امیروں کے حصے میں آ رہے تھے۔۔۔
کرپشن، اقربا پروری اور سیاہ دھن کی وجہ سے ملک کی ساٹھ سے اسی فیصد دولت پر صرف 22 خاندانوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔۔ جن میں اگر کوئی بنگالی نژاد تھا بھی ۔۔ تو کیا فرق پڑتا تھا کہ “خاناں دے خان پروہنے” امیر و غریب ہمیشہ ندی کے دو کنارے رہے ہیں ۔۔، چاہے ان کا تعلق کسی بھی قوم یا معاشرے سے کیوں نہ ہو۔۔۔
اس کے علاوہ کرپشن ایک ایسا مرض رہا ہے ۔۔ کہ جس سے ہمارے ترقی پذیر ممالک کبھی بھی پاک نہیں رہے۔۔۔ صرف ایوبی دور حکومت کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔۔۔ اس دور میں کرپشن کے 33 ارب روپے بیرونی بینکوں میں منتقل کئے گئے تھے ۔۔۔ کہ جب بات صرف لاکھوں کروڑوں تک ہوتی تھی۔۔۔ ظاہر ہے کہ ایسے استحصالی ماحول میں نفرت کا لاوا خوب پکتا ہے ۔۔ اور پیٹ کی آگ جہنم کی ان دیکھی آگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے ۔۔ جس میں ہر قسم کا نظریہ بھسم ہو جاتا ہے اور ایسی منفی تحریکوں کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ زبان کے مسئلے اور سیاسی محرومیوں کے بعد معاشی عدم توازن کے بیہودہ الزامات بنگالی لیڈروں کی گمراہی اور بد دیانتی ثابت کرتے تھے ۔۔ جو صرف اور صرف جاہ طلبی اور مفاد پرستی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔۔۔ اسی نام نہاد معاشی عدم توازن کے مفروضوں کو بنیاد بنا کر 5 فروری 1966ء کو لاہور میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے متحدہ پاکستان کے نئے آئین کی تشکیل کے لئے بیان کیے گئے چھ نکات یا مطالبات پیش کئے تھے ۔۔۔ جو 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی مشرقی پاکستان میں ریکارڈ توڑ کامیابی کی وجہ بن گئے تھے۔۔۔۔
ناظرین ۔۔ اگر ان چھ نکات کو غور سے دیکھیں تو ان میں پہلے دو نکتے چھوڑ کر باقی سبھی نکات علیحدگی کے مطالبات تھے ۔۔ جن میں مشرقی پاکستان کی مبینہ معاشی محرومیوں کے سدباب کا مطالبہ کیا گیا تھا۔۔ الگ کرنسی،الگ تجارت ،الگ مالیاتی نظام، الگ فوج یا نیم فوجی ملیشیا اور سب سے بڑھ کر مرکزی فوج جو اپنے اخراجات کے لئے صوبوں کی نظر کرم کی محتاج ہو ۔۔ جسے تسلیم کرنا کم از کم پاکستان کی ہمیشہ سے اصل حاکم اور سیاہ و سفید کی مالک فوج کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نہ تھا۔۔۔
روایات بتاتی ہیں ۔۔۔ کہ مغربی پاکستان کے منتخب نمائندے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پر امن حل اور ملکی بقا ء کے لئے مشرقی پاکستان کے منتخب نمایئندے شیخ مجیب الرحمن کی ہٹ دھرمی کے باعث ساڑھے پانچ نکات مان بھی لئے تھے ۔۔
ناظرین ۔۔ چھ نکات کے پہلے نکتہ کے بارے میں تو کسی با شعور شخص کو اختلاف نہیں ہو سکتا تھا ۔۔ کہ ایک جمہوری نظام کے تحت ہر بالغ شخص کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے وؤٹ کی طاقت سے اپنے حکمران منتخب کرے۔۔
یاد رکھیں ۔۔۔ تاریخ انسانی نے نظام حکومت کے لئے جمہوریت سے بہتر کوئی نظام وضع نہیں کیا۔۔ جہاں عوام کی مشاورت سے عوام کی حکومت قائم کی جاتی ہے ۔۔ جو عوام کے لئے قوانین بناتی ہے اور ایک مخصوص عرصہ کے بعد اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ہی حق حکمرانی حاصل کرتی ہے۔۔ مغربی ممالک کے بیشتر ممالک میں یہ نظام گزشتہ دو صدیوں سے کامیابی سے چل رہا ہے ۔۔ لیکن بد قسمتی سے ہم مسلمانوں کا مزاج ہی جمہوری نہیں ہے ۔۔ اور نہ ہمارے مسلمان حکمران، عوام الناس کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں۔۔۔
ایسا ہی کچھ شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ہوا ہے ۔۔ کہ انہوں نے جمہوریت کی بجائے آمرانہ طرز اپنایا۔۔۔ تو اس کا جو انجام ہوا ۔۔۔ وہ آپ ملاحظہ کر ہی چکے ہیں۔۔
ناظرین ۔۔۔ چھ نکات کے اس پہلے نکتہ سے یہ واضح تھا کہ حکومت اسی کی ہونی چاہئے جو اکثریت کی نمایندگی کرتا ہو ۔۔ لیکن پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ کسی طور بھی گوارا نہ تھا کہ ان پڑھ ، مفلوک الحال اور کالے کلوٹے پسماندہ بنگالیوں کی اکثریت ملک پر حکومت کرنے والی اشرافیہ کا فیصلہ کرے۔۔
ظاہر ہے متحدہ پاکستان میں وہ اکثریت میں تھے ۔۔ اور حکومت کا حق انہی کا تھا۔۔ جس سے وہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی محروم رہے ۔۔ اور ان کی عددی برتری کے خوف سے ایک بھی قومی الیکشن نہیں کروایا گیا تھا۔۔ جو مرکز بیزاری کی سب سے بڑی وجہ تھا۔۔
ناظرین ۔۔۔ ان چھ نکات کا واحد خوش آئند پہلو صرف یہی تھا کہ ایک وفاق پاکستان کی بات کی گئی تھی۔۔ جو اصل میں ایک کنفیڈریشن کی بات تھی ۔۔ جو بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مترادف ہو گیا تھا۔۔ کہ اب واپسی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔۔ جو بچا تھا بچا لو۔۔۔ ان چھ نکات کا مدعا یہی تھا کہ اب ایک کی بجائے دو ملک ہوں گے۔۔۔
ناظرین ۔۔۔ اگرچہ تلہ سازش کیس اس واقعہ کے دو سال بعد سامنے آیا تھا ۔۔ لیکن شیخ مجیب الرحمن اور اس کے مکتی باہنی کے ساتھیوں کے بھارت سے خفیہ رابطوں کا انکشاف 1963 ء سے ہوتا ہے ۔۔ اور وہ اسی پشت پناہی سے شیر ہو گیا تھا۔۔۔ ویسے بھی ان چھ نکات کو مان لینے سے دو پاکستان بن جاتے تو کوئی قیامت نہ آ جاتی۔۔۔
مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک بن جاتا تو کم از کم بنگلہ دیش جیسا منحوس اور مکروہ نام تو سننے میں نہ آتا۔۔۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں اور معاملہ فہمی سے محروم متقدر حلقوں کی ہٹ دھرمی اور کج فہمی کی وجہ سے پاکستان کو تاریخ کی ایک بد ترین فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔۔
ناظرین ۔۔ اس کے علاوہ چھ نکات کے دوسرے نکتے میں انتہائی تضاد بیانی اور خود غرضی کا مظاہر ہ کیا گیا تھا۔۔ ایک طرف تو مرکز کو صرف دفاع اور خارجہ امور تک محدود کیا جا رہا تھا۔۔ لیکن دوسری طرف نکتہ چھ میں مشرقی پاکستان کے لئے الگ فوج یا نیم فوجی دستوں کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔۔ گویا آئین کے تحفظ کے لئے جب کبھی مرکزی فوج یا حقیقت میں مغربی پاکستان کی فوج حسب معمول امریکہ بہادر کے مفادات کی تکمیل اور تحفظ کے لئے “عزیز ہموطنو” کہنے کی کوشش کرے۔۔ تو مشرقی پاکستان کے نیم فوجی دستے مزاحمت کر سکیں۔۔ لیکن اگر مشرقی پاکستان پر کہیں سے حملہ ہو جائے تو مغربی پاکستان کی فوج اپنا فرض پورا کرتے ہوئے سونار بنگلہ کا دفاع بھی کرے۔۔۔ یعنی آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔۔
ناظرین ۔۔۔ اس کے علاوہ مرکز کو صرف خارجہ امور کی ذمہ داری دینے کے باوجود بیرونی تجارت اور اس کا حساب و کتاب مشرقی پاکستان خود رکھنا چاہتا تھا ۔۔ حالانکہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں اس کے مالی مفادات کا تحفظ ہی اولین ترجیح ہوتا ہے ۔۔ اور انہی مالی مفادات کے لئے دیگر ممالک سے تعلقات استوار کئے جاتے ہیں ۔۔ اور تاریخ کی ہر لڑائی اور مہم جوئی کے پیچھے بھی سب سے مقدم مالی مفادات ہی رہے ہیں۔۔ اگر ہر صوبہ اپنے طور پر یہ کام کرنا شروع کر دے تو ایک ملک کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟۔۔۔ اگر مرکز کے پاس وسائل نہ ہونگے تو پورے ملک میں یکساں ترقی کیسے ممکن ہو گی؟۔۔۔۔
ناظرین ۔۔ ذرا غور فرمائیں ۔۔ کہ چھ نکات کے نکتہ 3 میں صرف اس دعوے کو دھرایا گیا تھا۔۔ کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کا استحصال کر رہا ہے۔۔۔ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ نئے دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی کمائی کی خوشبو آ رہی ہے۔۔ ان چھ نکات کے اگر نکتہ 4 کو نکتہ 3 ہی کے تسلسل میں پڑھا جائے تو اصل مدعا یہی تھا ۔۔۔ کہ سونار بنگلہ کا سرمایہ مغربی پاکستان تک نہ پہنچے۔۔ جسے اگر نکتہ 6 کے ساتھ بھی ملا کر پڑھیں تو اصل مدعا سامنے آ جاتا تھا ۔۔ کہ مرکزی یا مغربی پاکستان کی فوج ، مشرقی پاکستان کے سرمائے پر عیش نہ کر سکے۔۔
ناظرین ۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ ان چھ نکات کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے مالیاتی امور کے ماہرین اور دانشوروں کے علاوہ ڈاکٹر کمال حسین نے تخلیق کیا تھا ۔۔ جو بنگلہ دیش کے آئین کے خالق بھی تھے۔۔ 1970ء کے انتخابات میں چھ نکات نے عوامی لیگ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔۔ اور بقول پاکستان کے سب سے پہلے ماہانہ رسالے اردو ڈائجسٹ کے مدیر جناب الطاف حسین قریشی کے ذاتی مشاہدے کے ، بنگالیوں کے لئے ان چھ نکات کی اہمیت، صحاہ ستہ ، کے بعد سب سے زیادہ ہو گئی تھی۔۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F16299">logged in</a> to post a comment.