بی کیو نیوز! سب سے پہلے ب-ت پرستی اور ق-ب-ر پرستی کی بیماری قوم ن-و-ح میں آئی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے. ” (اپنی قوم سے مایوس ہو کر) حضرت ن-و-ح علیہ السلام یوں دعا کرنے لگے۔ اے پروردگار! (یہ لوگ) میری بات نہیں مانتے۔ یہ ان (ب-ت-و-ں) کی پیروی کرنے پر اصرار کرتے ہیں جو ان کے مال و دولت اور اولاد میں افزائش کرنے سے عاجز ہیں۔ البتہ ان کی ن-ح-و-س-ت سے
ان کا نقصان ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے (میرے ساتھ) بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تم اپنے معبودوں (کی پ-و-ج-ا) سے ہرگز باز نہ آنا خاص کر سواع، یعوق، یغوث اور نسر کی عبادت پر ڈٹے رہنا‘‘۔ یہ حضرت آدم الله عليه السلام کی اولاد میں سے نیک لوگ تھے۔ ان کی زندگی میں یہ لوگ ان کے پیروکار تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاروں نے اکٹھے ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ ہم ان کی تصویریں اور مجسمے بنائیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عبادت میں زیادہ شوق پیدا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ان بزرگوں کی تصویریں اور مجسمے بنائے۔ جب یہ لوگ اس عالم آب و گل سے رختِ سفر باندھ کر ملك عدم میں چلے گئے اور ان کی اولادیں بڑی ہوئیں تو ان سے کہا گیا کہ وہ ان کی پ-و-ج-ا کیا کرتے تھے اور ان سے
بارش طلب کرتے تھے۔ اس کی بات سن كر ان کے پرستار بن گئے آہستہ آہستہ تمام عرب ان کا پ-ج-ا-ری- بن گیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے مذکور ہے کہ یہ حضرت ن-و-ح علیہ السلام کی قوم میں سے صالح اور نیک انسان تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاران کی ق-ب-ر-و-ں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ پھر ان کی تصویریں اور م-ج-س-م-ے بنائے، پھر کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔ (صحیح بخاری: کتاب التفسیر) ایک مرتبہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ملک ح-ب-ش-ہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک گرجا گھر دیکھا جو تصویروں اور ب-ت-و-ں سے بھرا پڑا تھا۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس گرجے کا ذکر کیا یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا ”یہ وہ لوگ ہیں جب ان میں سےکوئی نیک اور صالح انسان فوت ہو جاتا تو وہ اس کی ق-ب-ر كو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ یہ لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں“۔ (صحيح مسلم ج : 1 ص :20) صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ﷺ نے اپنی رحلت سے چند روز پیشتر فرمایا: الا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبيائهم مساجد فاني انهاكم عن ذالك “. (صحيحين مشكوة ج ”میری بات غور سے سنو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی ق-ب-ر-و-ں کو مسجد ہی تصور کرتے تھے۔ خبردار! تم ایسی غلطی مت کرنا۔ میں تم کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کرتا ہوں“۔ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب اللہ کے حکم سے م-ل-ک- -ا-ل-م-و-ت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اپنی چادر اپنے چہرہ انور سے دور ہٹائی۔ پھر آپ پر غ-ش-ی طاری ہو گئی۔ پھر جب ہوش آیا تو فرمایا: لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مساجد۔ (مشکوة ص :69/ صحیح بخاری، ج:2 ص : 639 نیل الاوطار، ج:4 ص: 97) ”ی-ہ-و-د- و نصاری پر لعنت خداوندی ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی ق-ب-ر-و-ں کو جدہ گاہ بنا لیا“۔ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض ال-م-و-ت کے موقعہ پر فرمایا : لعن الله اليهود والنصاري اتخذوا قبور انبيائهم مساجد ولو لا ذالك لا برز قبره غير انه خشي ان يكون مسجدا۔ (صحیحین مشکوہ ج :1 ص1 : 19) ”ی-ہ-و-د اور نصاری پر اللہ کی لعنت ہو
انہوں نے اپنے انبیاء کی ق-ب-ر-و-ں- کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ حضورا کرم صلی اللہ علیہ سلم کی ق-ب-ر مبارک کو سجدہ گاہ بنا لیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی -ق-ب-ر مبارک باہر بنائی جاتی۔ مگر خدشہ تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو آپ کی ق-ب-ر مبارک سجدہ گاہ بن جائے گی“۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F5197">logged in</a> to post a comment.