بی کیو نیوز! لکھنؤ کے ایک غریب درزی کی کہانی جو اپنے علاقے میں ہر مرنے والے کے ج-ن-ا-ز-ے میں شامل ہوتا تھا اور وہ اسے جیسے بھی جانا پڑے، چاہے دکان بند کرنا پڑے یا جو بھی ہو اور کہتا تھا کہ میرے ج-ن-ا-ز-ے پر کون آئے گا میں تو ایک غریب آدمی ہوں اور نہ ہی کوئی مجھے جانتا ہے۔ اللہ پاک کی شان دیکھیں کہ 1902ء میں مولانا عبدالحئ لکھوی کا انتقال ہوا ریڈیو پر
بتلایا گیا اخبارات میں ج-ن-ا-ز-ے کی خبر آ گئی. ج-ن-ا-ز-ے کے وقت لاکھوں کا مجمع تھا. پھر بھی بہت سے لوگ ان کا ج-ن-ا-ز-ہ پڑھنے سے محروم رہ گئے۔ جب ج-ن-ا-ز-ہ گاہ میں ان کا ج-ن-ا-ز-ہ ختم ہوا تو اسی جگہ اس کے ج-ن-ا-زے- کو رکھ دیا گیا اعلان ہوا کہ ایک اور میت ہے اور جتنے لوگ بھی مولانا کے ج-ن-ا-ز-ے میں شامل تھے سارے کے سارے اس درزی کے ج-ن-ا-ز-ے میں شامل تھے۔ سبحان اللہ۔ حضرت رابعہ بصری تشریف فرما تھیں کہ خادمہ نے آ کر بتایا کہ باہر کچھ پانچ مہمان ہیں۔ آپ نے فرمایا ان کو بٹھائیں اور کھانا کھلائیں۔ خادمہ نے عرض کی کہ باورچی خانے میں تو صرف ایک روٹی ہے اور مہمان چار پانچ ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ ایک روٹی لے جاؤ اور باہر جا کر خیرات کر آؤ۔ اب میری اور آپ کی
سوچ تو یہی کہتی ہے کہ ایک ہے تو باقیوں کا انتظام کیا جائے نہ کے جو ہے اسے بھی باہر دے دیا جائے خیر حکم تھا رابعہ بصری کا تو تعمیل کیسے نہ ہوتی۔ خادمہ گئیں اور وہ روٹی باہر جا کر خیرات کر آئیں۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی پوچھا دروازے پر کون ہے۔ آواز آئی میں فلاں بادشاہ کا غلام ہوں ہمارے آقا نے آپ کے لیے کھانا بھیجا ہے۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F5533">logged in</a> to post a comment.