بی کیونیوز! اصحابِ ک-ہ-ف شہر ’’اُفسوس‘‘ کے شرفاء تھے جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے مگر یہ لوگ صاحبِ ایمان اور ب-ت پ-ر-س-ت-ی سے انتہائی بیزار تھے۔’’دقیانوس‘‘ کے ظ-ل-م و ج-ب-ر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے
جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد ناراض ہوا اور فرط غیظ و غ-ض-ب میں یہ حکم دے دیا کہ غ-ا-ر کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کر دیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر م-ر جائیں اور وہی غار ان لوگوں کی ق-ب-ر بن جائے۔ مگر دقیانوس نے جس شخص کے سپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحبِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحابِ ک-ہ-ف کے نام اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی۔ کچھ دنوں کے بعد دقیانوس بادشاہ م-ر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ’’بیدروس‘‘ تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں
مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ م-ر-ن-ے کے بعد اُٹھنے اور ق-ی-ا-م-ت کا انکار کرنے لگے۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غ-م میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے ساتھ گ-ر-ی-ہ و ز-ا-ر-ی کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ یا اللہ عزوجل کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو م-ر-ن-ےکے بعد زندہ ہو کر اٹھنے اور ق-ی-ا-م-ت کا یقین ہوجائے۔ بادشاہ کی یہ دعا مقبول ہو گئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غ-ا-ر کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا۔ دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہی-ب-ت و د-ہ-ش-ت سوار ہو گئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ ک-ہ-ف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور
نماز بھی ادا کر لی۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخا سے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤاور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ ’’دقیانوس‘‘ ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ ’’یملیخا‘‘ غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ یملیخا یہ منظر دیکھ کر محو حیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کہ اس شہر میں تو ایمان واسلام کا نام لینا بھی ج-ر-م تھا آج یہ انقلاب کہاں سے اورکیونکر آگیا؟ پھر یہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیاجس کا چلن بند ہوچکا تھا بلکہ کوئی اس سکہ کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کردیا اور حکام نے
ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟ ’’یملیخا‘‘ نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا ہی روپیہ ہے۔ حکام نے کہا کہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گزر گئے کہ اس سکہ کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہوجائے۔ یہ سن کریملیخا نے کہا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گزرے کہ اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے جو بت پرست تھا۔ ’’یملیخا‘‘ نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خ-و-ف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو میں تم لوگوں کو اُن سے ملادوں۔ چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں
اُس غار کے پاس پہنچے۔ اصحابِ ک-ہ-ف ’’یملیخا‘‘ کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو اُن لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ شاید یملیخا گ-ر-ف-ت-ا-ر ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور و غوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری گ-ر-ف-ت-ا-ر-ی کے لئے آن پہنچی ہے تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکرِ الٰہی اور ت-و-ب-ہ و استغفار میں مشغول ہو گئے۔ حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی نکال کر پڑھا تو اُس تختی پر اصحابِ ک-ہ-ف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ مومنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خ-و-ف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کردیا ہے۔ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلے تو
لوگ اصحابِ ک-ہ-ف کے حال پر مطلع ہوجائیں۔ حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے اور ان لوگوں نے اپنے بادشاہ ’’بیدروس‘‘ کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بیدروس بادشاہ اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحابِ ک-ہ-ف نے غار سے نکل کر بادشاہ سے معانقہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ بیدروس بادشاہ سجدہ میں گر کر خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے لگا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانی ظاہر کردی جس سے م-و-ت کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنے کا ہر شخص کو یقین ہو گیا۔ اصحابِ ک-ہ-ف بادشاہ کو دعائیں دینے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیری بادشاہی کی حفاظت فرمائے۔ اب ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں پھر اصحابِ ک-ہ-ف نے السلام علیکم کہا اور غار کے اندر چلے گئے اور سو گئے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وفات دے دی۔ بادشاہ بیدروس نے سال کی لکڑی کا صندوق بنوا کر
اصحابِ ک-ہ-ف کی مقدس میتوں کو اس میں رکھوا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اصحابِ ک-ہ-ف کا ایسا رعب لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا کہ کسی کی یہ مجال نہیں کہ غار کے منہ تک جا سکے۔ اس طرح اصحابِ ک-ہ-ف کی ل-ا-ش-و-ں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے سامان کر دیا پھر بیدروس بادشاہ نے غار کے منہ پر ایک مسجد بنوا دی اور سالانہ ایک دن مقرر کردیا کہ تمام شہر والے اس دن عید کی طرح زیارت کے لئے آیا کریں۔ (یہ واقعہ تفسیر خازن کے حوالے سے پیش کیا گیا، ج۳،ص۸۹۱۔۰۰۲)ترجمہ قرآن:۔ تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتاہے انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے۔ (پ15،الکہف:22) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں انہی کم لوگوں میں سے ہوں جو اصحابِ ک-ہ-ف کی تعداد کو جانتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اصحابِ کہف کی تعداد سات ہے اور آٹھواں اُن کا کتا ہے۔ (تفسیرصاوی، ج ۴،ص۱۹۱۱،پ۵۱،الکہف:۲۲) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے
اصحابِ کہف کا حال بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔(پ15،الکہف:9۔13) ترجمہ: کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور ج-ن-گ-ل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کے سامان کر تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکاپھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں دو گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں وہ کچھ جو ان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی۔ اس سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اصحابِ ک-ہ-ف کا پورا پورا حال بیان فرمایا ہے۔ جس کا تذکرہ اوپر ہوچکا۔ اصحابِ ک-ہ-ف کے نام:۔ ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُن کے نام
یہ ہیں۔ یملیخا، مکشلینا، مشلینا، مرنوش، دبرنوش، شاذنوش اور ساتواں چرواہا تھا جو ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور ان لوگوں کے کتے کا نام ’’قطمیر‘‘ تھا اور ان لوگوں کے شہر کا نام ’’افسوس‘‘ تھا اور ظ-ا-ل-م بادشاہ کا نام ’’دقیانوس‘‘ تھا۔ (مدارک التنزیل،ج ۳، ص ۶۰۲،پ۵۱،الکہف:۲۲) اورتفسیر صاوی میں لکھا ہے کہ اصحابِ ک-ہ-ف کے نام یہ ہیں۔ مکسملینا، یملیخا، طونس، نینوس، ساریونس، ذونوانس، فلستطیونس۔ یہ آخری چرواہے تھے جو راستے میں ساتھ ہو لئے تھے اور ان لوگوں کے کتے کا نام ”قطمیر” تھا۔ (صاوی،ج۴،ص۱۹۱۱،پ۵۱،الکہف:۲۲) اصحابِ ک-ہ-ف کتنے دنوں تک سوتے رہے:۔(پ۵۱،الکھف:۵۲) (اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نواوپر)نازل ہوئی۔ تو غیر مسلم کہنے لگے کہ ہم تین سو برس کے متعلق تو جانتے ہیں کہ اصحابِ ک-ہ-ف اتنی مدت تک غار میں رہے مگر ہم نو برس کو نہیں جانتے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ شمسی سال جوڑ رہے ہو اور قرآن مجید نے قمری سال کے حساب سے مدت بیان کی ہے اور شمسی سال کے ہر سو برس میں تین سال قمری بڑھ جاتے ہیں۔ (صاوی،ج۴،ص۳۹۱۱،پ۵۱،الکہف:۵۲)
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F6064">logged in</a> to post a comment.