قا-ر-و-ن کا خزانہ اور اس کا ع-بر-ت ن-ا-ک انجام

قارون کا خزانہ اور اس کا عبرت ناک انجام

قا-ر-و-ن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا ”یصہر“ کا بیٹا تھا۔ بہت ہی شکیل اور خوبصورت آدمی تھا۔ اسی لئے لوگ اُس کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر اُس کو ”منور“ کہا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس میں یہ کمال بھی تھا کہ وہ بنی ا-س-ر-ا-ئ-ی-ل میں ”توراۃ“ کا بہت بڑا عالم، اور بہت ہی ملنسار و بااخلاق انسان تھا۔ اور لوگ اُس کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے۔ لیکن بے شمار دولت اُس کے ہاتھ میں

آتے ہی اُس کے حالات میں ایک دم تغیر پیدا ہو گیا اور سامری کی طرح منافق ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بہت بڑا د-ش-م-ن ہو گیا اور اعلیٰ درجے کا متکبر اور مغرور ہو گیا۔ جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو اُس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روبرو یہ عہد کیا کہ وہ اپنے تمام مالوں میں سے ہزارہواں حصہ زکوٰۃ نکالے گا مگر جب اُس نے مالوں کا حساب لگایا تو ایک بہت بڑی رقم زکوٰۃ کی نکلی۔ یہ دیکھ کر اس پر ایک دم حرص و بخل کا بھ-و-ت سوار ہو گیا اور نہ صرف زکوٰۃ کا منکر ہو گیا بلکہ عام طور پر بنی ا-س-ر-ا-ئی-ل کو بہکانے لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بہانے تمہارے مالوں کو لے لینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لئے اُس خبیث نے یہ گندی اور گھناؤنی چال چلی کہ

ایک عورت کو بہت زیادہ مال و دولت دے کر آمادہ کرلیا کہ وہ آپ پر ب-دک-ا-ری کا الزام لگائے۔ چنانچہ عین اُس وقت جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام وعظ فرما رہے تھے۔ ق-ا-ر-و-ن نے آپ کو ٹ-و-ک-ا کہ فلانی عورت سے آپ نے ب-دک-ا–ری کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس عورت کو میرے سامنے لاؤ۔ چنانچہ وہ عورت بلائی گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عورت! اُس اللہ کی قسم! جس نے بنی ا-س-ر-ا-ئ-ی-ل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا۔ اور عافیت و سلامتی کے ساتھ دریا کے پار کرا کر ف-رع-ون سے نجات دیسچ سچ کہہ دے کہ واقعہ کیا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جلال سے عورت سہم کر کانپنے لگی اور اس نے مجمع ِ عام میں صاف صاف کہہ دیا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی! مجھ کو ق-ار-ون نے

کثیر دولت دے کر آپ پر بہتان لگانے کے لئے آمادہ کیا ہےاُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام آبدیدہ ہو کر سجدہ شکر میں گرپڑے اور بحالتِ سجدہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ! ق-ار-ون پر اپنا ق-ہر و غ-ض-ب نازل فرما دے۔ ق-ار-ون کا انجام پھر آپ نے مجمع سے فرمایا کہ جو ق-ار-ون کا ساتھی ہو وہ ق-ا-ر-و-ن کے ساتھ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ ق-ا-ر-و-ن سے جدا ہو جائے۔ چنانچہ دو خبیثوں کے سوا تمام بنی ا-س-ر-ا-ئ-یل ق-ار-ون سے الگ ہوگئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین! تو اس کو پکڑ لے تو ق-ار-و-ن ایک دم گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا پھر آپ نے دوبارہ زمین سے یہی فرمایا تو وہ کمر تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر ق-ا-ر-و-ن رونے اور بلبلانے لگا اور قرابت و رشتہ داری کا واسطہ

دینے لگا مگر آپ نے کوئی التفات نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل زمین میں دھنس گیا۔ دو منحوس آدمی جو ق-ا-ر-ون کے ساتھی ہوئے تھے، لوگوں سے کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ق-ا-ر-ون کو اس لئے دھنسا دیا ہے تاکہ ق-ا-ر-ون کے مکان اور اُس کے خزانوں پر خود قبضہ کرلیں تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ ق-ار-ون کا مکان اور خزانہ بھی زمین میں دھنس جائے۔ چنانچہ ق-ا-ر-ون کا مکان جو سونے کا تھا اور اس کا سارا خزانہ، سبھی زمین میں دھنس گیا۔ ( صاوی، ج۴، ص۱۵۴۶۔۱۵۴۷،پ۲۰، القصص:۸۱) اسکا کا خزانہ:۔ اس کو قرآن کی زبان سے سنئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے قا-ر-و-ن کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اُن خزانوں کی کنجیاں ایک مضبوط اور طاقت ور جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی۔ قرآن مجید میں ہے:۔

اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِۗ- ترجمۂ کنزالعرفان:۔ بیشک ق-ارو-ن موسیٰ کی قوم سے تھا پھر اس نے قوم پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے جن کی کنجیاں (اُٹھانا) ایک طاقتور جماعت پر بھاری تھیں حضرت موسٰی علیہ السلام کی نصیحت:۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قا-ر-و-ن کو جو نصیحت فرمائی وہ یہ ہے کہ جس کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے۔ اسی خیر خواہی والی نصیحت کو سن کر ق-ا-ر-و-ن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا د-ش-م-ن ہو گیا۔ غور کیجئے کہ کتنی مخلصانہ اور کس قدر پیاری نصیحت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ساری قوم ق-ا-ر-ون کو سناتی رہی کہ: اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ﴿76﴾وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(77) ؕ ترجمۂ کنزالعرفان:۔

جب اس سے اس کی قوم نے کہا:اِترا ؤنہیں ، بیشک الله اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو مال تجھے الله نے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا الله نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد نہ کر، بے شک الله فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔ (پ20،القصص:76،77) ق-ار-ون زمین میں دھنس گیا:۔ ق-ا-ر-ون نے اپنے مال کے گھمنڈ میں اس مخلصانہ نصیحت کو ٹھکرا دیا اور خوب بن سنور کر تکبر اور غرور سے اتراتا ہوا قوم کے سامنے آیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدگوئی اور ایذاء رسانی کرنے لگا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کو قرآن کی زبان سے سنئے اور خدا کی اس ق-ا-ہ-ر-ا-نہ گرفت پر خ-و-ف ِ الٰہی سے تھرّاتے رہیے۔ اللہ اکبر۔ فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ ﴿81﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو الله کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ خود (اپنی) مدد کرسکا۔ ( پ20،القصص:81)

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights