بی کیونیوز! اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو (عراق) موصل کے علاقے نینویٰ والوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ آپ اپنی قوم کو ایمان و توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن آپؑ کی قوم آپؑ کی تکذیب کرتی رہی۔ ایک مدت کی تبلیغ کے بعد جب آپؑ بالکل مایوس ہوگئےکہ قوم ایمان لانے والی نہیں اور ع-ذ-ا-بِ الٰہی کا وقت قریب آگیا تو آپ اپنی قوم کو تین دن کے بعد ع-ذ-ا-بِ الٰہی کی وعید سنا کر
اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نکل گئے اور مشکل سے دوچار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴿٤٨﴾ سورة القلم پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو اور مچھلی والے (یونس علیہ اسلام) کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ۔ سورة الأنبياء مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وه غصہ سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ لیکن حضرت یونس علیہ السلام کو جوں ہی احساس ہوا کہ اُن سے غلطی ہو گئی ہے ، انہوں نے اپنے آپ کو ملامت کیا اور مچھلی کے پیٹ کے اندھرے قید خانے سے اللہ کو
پکارا ۔ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ سورة الأنبياء بالآ خر وه اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں اپنے نفس پر ظ-ل-م کیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کی قید خانہ سے رہائی کیلئے توحیدِ باری تعالیٰ کا ہی سہارا لیا اور اللہ کی ہی پاکی بیان کی، کسی نبی، ولی یا اللہ کے کسی برگزیدہ بندے کو نہیں پکارا اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی اور کا وسیلہ نہیں پکڑا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے کہا ’ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ ‘ یعنی ’ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا اللہ ‘ جو کہ کلمہٴ توحید ہے اور کہا ’ سُبْحَانَكَ ‘ یعنی ’ سبحان اللہ ‘ جو کہ ا لله تعالی کی تسبيح ہے اور پھر ’ ;إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‘ اپنے غلطیوں کا اقرار و اعتراف اِن لفظوں میں کیا کہ ’ بیشک میں اپنے نفس پر ظ-ل-م کرنے والوں میں
سے ہوں۔ اس جملے میں اِن باتوں کا اعتراف ہے کہ اے اللہ میں نے تیرے حکم کا انتظار نہ کرکے تیرا کچھ نہیں بگاڑا اور مجھے اس قید میں ڈال کر تو نے مجھ پر کویٴ ظ-ل-م نہیں کیا کیونکہ تو اس سے پاک ہے کہ کسی پر ظ-ل-م کرے‘ یہ تو ہم انسان ہی ہیں جو جلد باز ہیں نا شکرے ہیں اور بے صبرے ہیں اور اپنے ہی جان پر ظ-ل-م کرنے والے ہیں۔ تب ہمارے غفور الرحیم رب نے نہ صرف اپنے نبی کی دعا قبول کی اور انہیں غم (قید) سے نجات بخشی بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ جو بھی مومن بندہ یہ دعا مانگے گا ‘ اُسے نجات ملے گی: فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾ سورة الأنبياء پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں، رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
ذوالنون ( یعنی یونس علیہ السلام ) کی وہ دعاء جو انہوں نے مچهلی کی پیٹ کے اندر مانگی تھی (یعنی ;لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ) جو مسلمان اپنے کسی بهی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعاء کرے گا اللہ تعالی اس دعاء کو قبول فرماویں گے ۔( رواه الترمذي والحاكم ) یہ دعا بھی ہے اور کلمہٴ توحید بھی ۔ اس کی برکتوں سے ایک طرف حضرت یونس علیہ السلام ایک ایسی قید خانے (مچھلی کی پیٹ ) سے آزاد ہوئے جس کا تصور بھی کویٴ انسان نہیں کر سکتا تو دوسری طرف ان کی م-ش-ر-ک قوم بھی ش-ر-ک کی ظ-ل-م-تو-ں سے آزاد ہو یٴ اور ایک اللہ پہ ایمان لے آیٴ ‘ ایک اللہ کی بندگی میں داخل ہو گیٴ۔ انسانی تاریخ میں واحد قوم ہے جنہیں اللہ کا ع-ذ-ا-ب آنے کے بعد نجات ملی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے:
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٩٨﴾ سورة يونس پس کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے۔ جب وه ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے ع-ذ-ا-ب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لیے زندگی سے فائده اٹھانے (کا موقع) دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ : میں تمہیں وہ چيز نہ بتاؤں کہ اگرکسی پر کوئ مصیبت اور آزمائش آجاۓ تو وہ اسے پڑھے تو اسے اس سے نجات مل جا ئے گی وہ یونس علیہ السلام کی دعا ہے ( لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین)۔ مستد رک حاکم اور صحیح الجامع ( 2605 ) میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اس وقت پوری امت
گوناگوں مصیبتوں‘ آزمائشوں اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اور طرح طرح کے ع-ذ-ا-با-ت کا ش-ک-ا-ر ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم سب اس دعا کی معنی مطلب کو سمجھیں‘ کلمۂ توحید ’’ لا الہٰ الا اللہ محمدُ الرسول اللہ ‘‘ کی معنی مطلب سمجھیں‘ صرف اور صرف اللہ وحدہ‘ لا شریک کو پکاریں‘ اسی سے فریاد کریں ‘ اسی سے دعا مانگیں۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F6231">logged in</a> to post a comment.