بی کیونیوز! حضرت صالح علیہ السّلام کی مسلسل وعظ و نصیحت اور اس کے نتیجے میں غریب لوگوں کا ایمان لانا قومِ ث-م-و-د کے سرداروں کے لیے تشویش کا باعث تھا۔ دراصل غرور وتکبّر کی دلدل میں دھنسے یہ لوگ اس بات کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی عام آدمی اس طرح محفلوں اور چوک، چوراہوں پر کھڑا ہو کر اُن کے آباؤاجداد کے خدائوں کی نفی کرے اور صرف ایک اَن دیکھے ربّ کی عبادت
کی بات کرے۔ چناں چہ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے سب سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور پھر متفّقہ طور پر ایک نتیجے پر پہنچنے کے بعد اُنہوں نے حضرت صالح علیہ السّلام کو بلایا اور کہا۔ ’’اے صالح ؑ! اگر تم اللہ کے سچّے پیغمبر ہو، تو ہم کو کوئی ایسا معجزہ دِکھاؤ، جسے دیکھ کر ہمیں تم پر یقین آ جائے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے فرمایا ’’اے میری قوم کے لوگو! تم کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ جو سامنے چٹان ہے، اس میں سے ایک ایسی اونٹنی برآمد کرو، جو گابھن ہو، بچّہ دے، ہم سب کے لیے دودھ مہیا کرے اور اس میں فلاں فلاں خُوبیاں ہوں۔ ‘‘حضرت صالح علیہ السّلام نے اُن سے فرمایا’’ اگر مَیں تمہاری شرط پوری کر دوں، تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آئو گے؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا ’’ہاں، ہم تمہارے ربّ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور
گڑگڑا کر دُعا فرمائی اور اپنی قوم کی فرمائش پوری کرنے کی التجا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دُعا قبول فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹان شق ہو گئی اور اُس میں سے ایک طویل القامت، خُوب صورت اونٹنی برآمد ہوئی، جس میں وہ سب خوبیاں تھیں، جن کی قومِ ث-م-و-د- نے فرمائش کی تھی۔ یہ محیّرالعقول منظر دیکھ کر قومِ ث-م-و-د لاجواب ہو گئی۔ اس موقعے پر قوم کے سرداروں میں سے ایک، جندع بن عمرو بن محلات بن لبید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا، لیکن اکثریت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور اسے ج-ا-د-و- کا کمال ظاہر کرتی رہی۔ اس موقعے پر حضرت صالح ؑنے اپنی قوم سے فرمایا ’’اے میری قوم! یہ ناقۃ اللہ (یعنی اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی) ہے، جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے۔ اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی تکلیف نہ دینا، ورنہ
اللہ کا ع-ذ-ا-ب تمہیں فوری پکڑ لے گا۔‘‘ (سورۂ ہود64:)۔ اونٹنی اور اس کا بچّہ سارا دن نخلستان میں چَرتے رہتے تھے، سب قبیلے والے پیٹ بھر کر اونٹنی کا دودھ پیتے، لیکن وہ کم نہ ہوتا۔حضرت صالح ؑنے کنویں کے پانی کو بھی تقسیم کر دیا تھا۔ ایک دن اونٹنی پانی پیتی تھی اور ایک دن ث-م-و-د- کے لوگ۔ جب اونٹنی پانی پینے آتی، تو وہ کنویں کا سارا پانی پی جاتی۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’صالح ؑنے اپنی قوم سے کہا (دیکھو) یہ اونٹنی ہے (ایک دن) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معیّن روز تمہاری باری۔ اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا، (نہیں تو) تم کو سخت ع-ذ-ا-ب- آ پکڑے گا۔‘‘ (سورۂ الشعراء156:،155) کچھ ہی عرصے بعد قومِ ث-م-و-د کو اونٹنی کی موجودگی کھٹکنے لگی۔ اُنہیں اپنے ہرے بھرے نخلستانوں میں آزادی سے گھومتی پِھرتی اونٹنی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور جب وہ یہ دیکھتے کہ اپنی
باری آنے پر اونٹنی ایک ہی سانس میں پورے کنویں کا پانی پی جاتی ہے، تو حیران ہو کر اسے ج-ا-د-و -سے تشبیہ دیتے۔ آخرکار ش-ی-ط-ا-ن کے اکسانے پر اُنہوں نے اونٹنی سے جان چھڑوانے کی تدابیر سوچنی شروع کر دیں اور اس کا ایک ہی حل تھا کہ اُسے ہ-ل-ا-ک -کر دیا جائے، مگر کیسے؟ قومِ ث-م-و-د کے سردار یہ کام خود اپنے ہاتھوں انجام دینے کو تیار نہ تھے۔سو، اُنہوں نے دو نہایت اونچے اور مال دار خاندان کی آزاد منش عورتوں کو راضی کیا کہ وہ قوم کے کسی نوجوان سے یہ کام کروائیں،جس پراُن عورتوں نے دو اوباش اور ش-ر-ا-ب و ش-ب-ا-ب کے رسیا نوجوانوں کو اونٹنی کے ق-ت-ل پر آمادہ کیا، جن کے ساتھ مزید سات اوباش نوجوان شامل ہوگئے۔ قرآنِ پاک کی سورۂ نمل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح ؑ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا’’شہر میں نو افراد کی ایک جماعت
تھی، جو مُلک میں ف-س-ا-د مچاتے پِھرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔‘‘ (سورۂ نمل48:)۔اور پھر حسبِ پروگرام ایک دن یہ 9 افراد اونٹنی کے انتظار میں کنویں کے پاس گھات لگا کر بیٹھ گئے، جب کہ قوم کے لوگ اللہ کے ع-ذ-ا-ب کے ڈر سے چُھپ کر یہ منظر دیکھنے لگے۔ جب اونٹنی کنویں کے قریب آئی، تو مصدع نامی شخص نے ت-ی-ر چلایا، جو اُس کی پنڈلی میں پیوست ہو گیا اور ٹانگ سے خ-و-ن کا فوّارہ جاری ہو گیا۔ اونٹنی کو ز-خ-م-ی دیکھ کر باقی لوگ خ-و-ف زَدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر دونوں عورتیں آگے بڑھیں اور مَردوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا، جس پر قبیلے کا سب سے قوی شخص، قدار بن سالف آگے بڑھا اور ت-ل-و-ا-ر کے ایک بھرپور وار سے اونٹنی کی کونچیں (یعنی پچھلے پائوں کے اوپر کا حصّہ) کاٹ ڈالیں۔ اونٹنی شدید ز-خ-م-ی ہو کر زمین پر
گر پڑی اور ایک زوردار چیخ ماری۔ اسی اثناء میں ز-خ-م-ی اونٹنی کو گھیرے میں لے کر اُس پر ن-ی-ز-و-ں اور ت-ل-و-ا-ر-و-ں کے لاتعداد وار کیے گئے، جس سے وہ ہ-ل-ا-ک- ہو گئی۔ اُدھر اس کا بچّہ بھاگتا ہوا پہاڑ پر چڑھا اور چیخیں مارتا غائب ہو گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اُن درندوں نے پیچھا کر کے اُسے بھی مار ڈالا۔ (واللہ اعلم)
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F6448">logged in</a> to post a comment.