عظیم المرتبت صحابیہ حضرت زنیرہ ؓ کا قبول اسلام کا واقعہ

عظیم المرتبت صحابیہ حضرت زنیرہ ؓ کا قبول اسلام کا واقعہ

قبیلہ مخزوم کے مغرور اور س-ر-ک-ش سردار عمر و بن ہشام کے پاس روپے پیسے کی بہتات تھی۔ اس کے شان و شو کت کے حامل محل میں غلاموں اور کنیزوں کی بھر م-ار تھی لیکن پھر بھی اس کی نظر ایک رومی کنیز پر پڑی تو اس نے اسے منہ مانگے داموں خرید لیا اس لیے نہیں کہ اسے ملازمہ کی ضرورت تھی بلکہ اس لیے کہ یہ سرخ و سفید خوبصورت کنیز اس کے دل کو بھا گئی تھی۔ زنیرہ کے ذہن میں بھی اپنی جائے پیدائش کا تصور محض ایک

بھولے بسرے خواب کا رہ گیا تھا۔ میں کون ہوں؟ کیا میں غلامی کے لیے پیدا ہوئی ہوں؟ کیا کبھی کوئی فیصلہ اپنی مرضٰ سے بھی کر سکتی ہوں؟ اس کا کام تابعداری تھا اور کام کی نوعیت کا تعین کرنا مالک کا کام تھا۔ اپنی شناخت سے بے شناخت زنیرہ کا سوال گاہے بگاہے اسے بے چین کر دیتا۔ میں کون ہوں؟ میں کون ہون؟ لیکن جواب کون دے یہ بھی کوئی نہیں جا نتا تھا۔ دن گزرتے چلے گئے زنیرہ اس غ-لا مانہ زندگی کی عادی ہو چکی تھی اب وہ سوال بھی کبھی کبھار ہی اس کے ذہن میں اٹھتا۔ عمر و بن ہشام کا رویہ زنیرہ سے رواتی آقا اور غلام کا تھا اونٹوں کا گوبر اٹھانا ان کو چارہ ڈالنا۔ مالک کا غلاموں پر احکامات صادر کر نا ڈا-نٹ ڈپ-ٹ، گ-ال-ی-اں اور م-ار پیٹ بس یہی کچھ تو اس نے دیکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آگاہ کیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اللہ کے قادرانہ اوصاف کا امین، صفاتِ الٰہیہ سے

واقف اورملاءاعلیٰ کی آخری حدوں سے بہت آ گے کا شعور رکھنے والا ہے۔ اب وہ ایک معمولی کنیز سے رسول اللہ ﷺ کی عظیم المر تبت صحا بیہ زنیرہ ؓ بن گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضر ت زنیرہ ؓ کو اللہ کے قرب کے لئے چند طریقے مرحمت فرمائے اور تاکید فرمائی کہ ابھی اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہ کر یں۔ اب-و ج-ہ-ل حضرت زنیرہ ؓ کو اتنا بری طرح زد و ک-وب کرتا کہ وہ بے ہوش ہو جاتیں وہ م ا ر م ا ر کر تھک جا تا مگر اللہ کی یہ نیک اور صابر بندی سب کچھ سہہ لیتیں مگر پا ئے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آتی۔ حضرت زنیرہ ؓ کا پورا ج-س-م زخ- م ز-خ م رہتا اور اس میں سے خ و-ن و پ ی-پ رسنے لگتا مگر اب وہ روح کے اس سفر پر گامزن تھیں جہاں مادی ج-س-م کو آدمی رو-ح کے خول یا لباس کی صورت میں دیکھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو جب حضرت زنیرہ ؓ کے اوپر ہونے والے م ظ ا ل م کی خبر پہنچتی تو

غمگین ہو جاتے۔ ایک مر تبہ آپ ﷺ کے ایماء پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ ابو ج-ہ-ل کے پاس گئے تاکہ انہیں خرید کر آزاد کر دیں۔ اور اس سے کہا کہ زنیرہ ؓ کو فروخت کر دو مگر وہ ایک کینہ پر ور شخص تھا لہٰذا اس نے حقارت سے انکار کر دیا اس کا ظ-ل-م و ج-ب-ر یہاں تک بڑھا کہ حضرت زنیرہ ؓ کی بینائی جاتی رہی اورآنکھیں بے نور ہو گئیں۔ کل تک جو لوگ حضرت ز نیرہ ؓ کی بات کا مزے لے لے کر مضحکہ اور تمسخر اڑا رہے تھے انہیں س ا ن پ سونگھ گیا تھا خصوصاً ابو ج-ہ-ل تو شرم کے م ا ر ے گھر سے ہی نہ نکلا۔ اسی روز حضرت ابو بکر ؓ ابو جہل کے پاس دوبارہ آ ئے اور کہا کہ اگر تم زنیرہ ؓ کو فروخت کر دو تو میں اس کے دگنے دام دوں گا اور تم اس سے زیادہ طاقتور اور محنتی کنیز خرید سکو گے اب-و ج-ہ-ل زنیرہ ؓ کو مزید اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اپنی ہی بات کی وجہ سے اسے سب کی اٹھانی پڑی تھی اس لیے اس نے کئی گنا زیادہ دام پر حضرت زنیرہ ؓ کو فروخت کر دیا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان کو آزاد کر دیا۔

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights