بی کیونیوز! گراہم ہین کک سے سوال ہوا کہ اہرام مصر کیسے بنے؟ تھوڑا سا سوچا اور پھر دو ٹوک الفاظ میں کہنے لگے۔ میں نہیں جانتا یہ کیسے بنائے گئے۔ اور اگر کوئی شخص، ادارہ یا سائنسدان یہ کہتا ہے کہ وہ اہرام کی تعمیر کے راز جانتا ہے۔ تو وہ سچ نہیں بول رہا۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے۔ یہ عالی شان اہرام اپنے اندر اسرار و رموز کا مجموعہ ہیں۔ ہماری سمجھ سے بالاتر راز پنہاں ہیں۔ پہلا راز تو ان کا حجم ہے۔ یہ
وسیع الجسامت ہیں۔ ایک اہرام کا وزن 60لاکھ ٹن ہے۔ ہم نے وزن تو نہیں کیا۔ لیکن حجم سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ 60لاکھ ٹن سے ہلکا کسی صورت میں نہ ہوگا۔ زمین پر اس کا پھیلائو 13ایکڑ ہے۔ زمین پر ان کی چوڑائی ہر جگہ سے 759.9 فٹ ہے۔ ہر سمت سے چوڑائی اتنی ہی ہے۔ زمین سے اس کی نوک تک اونچائی 48.6فٹ ہے۔ تعمیر میں ہزاروں بلاکس استعمال ہوئے۔ یہ پتھر ہماری اینٹوں سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ کہیں یہ کافی بڑا ہے تو یہ صحیح تشریح نہیں ہوگی ،کیونکہ یہ صرف بڑا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی تعمیر میں کئی سائنسی راز پنہاں ہیں۔ یہ ہمارے کرہ ارض کو مد نظر رکھتے ہوئے خاص انداز میں بنایا گیا ہے۔ اس کا زاویہ ایک خاص ڈگری پر رکھا گیا ہے۔ دور جدید میں میرا سامنا کسی ایسے ماہر تعمیرات سے نہیں ہوا جو اس زاویے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کے
پتھروں سے اتنی بلند وسیع اور بھاری بھرکم عمارت تعمیر کر سکے۔ یہ بڑا رسکی کام ہے۔ جس کا رخ صحیح شمال کی جانب ہو ، کوئی ماہر ایسا نہیں کرسکتا۔ میں یہ بھی نہیں جان سکا کہ قدیم مصریوں نے ایسا کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ بلکہ شاید یہ عظیم الشان اہرام بنانے والوں کے ذہن میں کچھ اور مشکلات ہوں گی۔ ان کا مقصد صرف عمارت بنانا نہیں تھا بلکہ وہ اس کا زاویہ بھی کرہ ارض سے ایک خاص سمت میں رکھنا چاہتے تھے۔ اہرام مصرکے رخ بھی ہمارے کرہ ارض کے خاص زاوئیے پر ہیں۔ مگر میں یہاں بہت زیادہ اعداد و شمار دے کر آپ کو بور نہیں کروں گا۔ یہ شاید آپ کی سمجھ میں نہ آسکیں۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر آپ اہرام مصرکی اونچائی کو 43200سے ضرب دیں تو پھر آپ کو زمین کا نصف قطر (Radius)مل جائے گا۔ یعنی اہرام مصربنانے والے
ماہرین کے ذہن میں زمین کا نصف قطر بھی تھا۔ اگر آپ 43200 کو اہرام مصر کے ”احاطہ‘‘ (Perimeter)سے ضرب دیں تو پھرخط استوا (Equitorial Circumference ) مل جائے گا۔ یعنی زمین کے زاویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلندی اور پھیلائو بنایا گیا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جسے ہم ”سیاہ دور‘‘ کہتے ہیں ۔ ہزاروں سال پہلے ایسا کیسے ہوا۔ جب لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کرہ ارض کیا ہے؟ خط استوا اور اس کا قطرکتنا ہے؟ ان تمام باتوں سے وہ ناواقف تھے۔ یہ اہرام اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگ 1سے 43200کے حروف تک واقف تھے۔ کیونکہ یہ ان کی تعمیرات میں ایک جزو کے طور پر شامل تھے۔ یعنی وہ لوگ زمین کے حدود اربع اور سمتوں سے بھی واقف تھے۔ یہاں میں ایک اور حیران کن بات بتانا چاہتا ہوں۔ یہ 43200 کیا ہے؟ یہ بھی خاص نمبر ہے۔ کیونکہ یہ زمین کی
حرکت سے اخذ کیا گیا ہے۔ زمین اپنے محور سے ہر 72برس میں ایک ڈگری ہٹی ہوئی لگتی ہے یعنی (wobbles) کرتی ہے۔ اگر آپ 72کو 600سے ضرب دیں تو یہ نمبر نکل آئے گا۔ میں کافی حیران تھا۔ اس لئے بار بار چیک کیا کہ کہیں دھوکا تو نہیں کھا رہا، تو پتہ چلا کہ ایسا ہی ہے۔ اہرام مصربنانے والوں نے ہمیں اس طرح زمین کے طول و عرض سے آگاہ کیا۔ انہوں نے سکیل کی صورت میں ہر چیز کھول کر سامنے رکھ دی اور یہ انتہائی دانش مندانہ کام ہے۔ یہ علم کہاں سے آیا؟ ایسا کیسے ممکن ہوا ہے؟ اس کا نتیجہ میں یہی نکال سکتا ہوں کہ ایک بہت ترقی یافتہ انسانی کہانی اس کے پس منظر میں پنہاں ہے۔ اہرام مصر کی تمام باریکیاں تو کم از کم یہی کہتی ہیں۔ عام طور پر ہم دھوکا کھا جاتے ہیں لیکن اس کیس میں ایسا نہیں ہے۔ لگ بھگ بارہ ہزار برس قبل ایک انتہائی ترقی یافتہ تہذیب تھی جو ہم نے کھودی ہے۔
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F7385">logged in</a> to post a comment.