ش-ی-ط-ا-ن اور میں

شیطان اور میں

بی کیونیوز! دو ماہ قبل دکان پر ایک نورانی شکل والے ایک صاحب آئے۔ ان کے چہرے پر ٹپکتا “نور” دیکھ کر میں بڑا متاثر ہوا. بڑی عقیدت سے انہیں بٹھایا. کہنے لگے. میں ش-ی-ط-ا-ن ہوں. اور میں آج تمہاری مارکیٹ میں اپنے “چیلوں” سے ملاقات کرنے آیا ہوں. اور تم تو میرے خاص الخاص چیلے ہو. تو سب سے پہلے تمہارے پاس آیا ہوں. جلدی سے دودھ پتی کڑک چائے منگاؤ. بہت طلب ہورہی ہے. اس کی بات سن کر

میں غصے سے “کانپتے” ہوئے بولا. کیا بکواس کررہے ہو. الحمدللہ پانچ وقت کا نمازی اور حاجی بندہ ہوں. پابندی سے ہر سال زکواۃ بھی نکالتا ہوں. یہ دیکھو میرے ماتھے پر سجدے کا بڑا سا “نشان” بھی موجود ہے. پکا سچا مسلمان ہوں. اور تمہاری یہ جرات کہ تم مجھے اپنا خاص الخاص چیلا کہتے ہو. ش-ی-ط-ا-ن نے یہ سن کر مجھے گلے لگالیا. شاباش میرے چیلے. تم تو میری توقع سے بڑھ کر نکلے. اب تو میرا “رواں رواں” غصے سے پھڑپھڑانے لگا. اسے ہاتھ سے پکڑ کر جیسے ہی دکان سے باہر نکالنے لگا. خ-و-ف سے میری آنکھوں کے ڈیلے باہر نکل آئے. اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تو تھا لیکن محسوس نہیں ہورہا تھا. ایسا لگا، جیسے ہوا ہاتھ میں ہو. ماتھے پر پسینے کی لہریں بہنے لگیں. خاموشی سے بیٹھ گیا. ش-ی-ط-ا-ن- اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا. اچھا اب میں تم سے چند سوالات پوچھتا ہوں. تم ہاں

یا ناں میں جواب دینا. میرا اشارہ پاکر پوچھا. تمہارا پڑوسی پچھلے دو مہینے سے بیروزگار ہے. اس کے بچوں کو اسکول فیس نا دینے کی وجہ سے نکال دیا گیا. شوکت کریانے والے نے ادھار دینے سے انکار کردیا ہے. دو ہفتے سے اس کے بچے پتلی دال کھاکر گذارا کررہے ہیں. کیا تمہیں ان کی حالت کا معلوم نہیں؟ میں بغیر شرمندہ ہوئے بولا. ہاں معلوم ہے. ش-ی-ط-ا-ن نے مجھے پیار سے “تھپکی” دی اور دوسرا سوال پوچھا. جب تم غریب تھے تو تم دعائیں کرتے تھے. یا اللہ مجھے اتنا دے کہ میں انسانیت کی خدمت کھل کر کرسکوں. اور جب اللہ نے تمہیں دیدیا تو کیا تم نے کبھی غریبوں کی مدد کی؟ اور تمہارے محلے کی غریب یتیم بچیوں کی مجبور و لاچار ماؤں نے تمہارے آگے اپنی جھولی مدد کے لیے پھیلائی. لیکن تم نے وسائل ہوتے ہوئے بھی ان کی مدد نہیں کی. کیا میری یہ بات غلط ہے؟ میں “پھڑک” کر کہنے لگا. میں کیا

پ-ا-گ-ل ہوں جو اپنے خ-و-ن پسینے کی کمائی ان غریبوں کو بانٹتا پھروں. میرا جواب سن کر ش-ی-ط-ا-ن بڑی عقیدت سے میرے ہاتھوں کے “چٹاچٹ” بوسے لینے لگا. -ش-ی-ط-ا-ن کی عقیدت بھرے بوسے دیکھ کر میری گردن فخر سے اکڑ گئی. فیروزخان کو دودھ پتی ملائی والی چائے لینے بھیج دیا. ش–ی-ط-ا-ن نے مسکراتے ہوئے تیسرا سوال پوچھا کیا تم اپنے غریب عزیز واقارب کی کبھی مدد کی؟ اور حالانکہ تم بڑی آسانی سے ان کی مشکلات دور کرسکتے ہو. میں جھنجھلاکر بولا. تم ش-ی-ط-ا-ن ہونے کے باوجود نہیں سمجھتے کہ امیر آدمی کو غریب کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے. غریب کی غربت دور ہوجائے تو پھر ہم امیر اپنی “اکڑ” کس کو دکھائیں گے؟ ش-ی-ط-ان- میرا جواب سن کر دھمال ڈالنے لگا. اپنے سر سے پگڑی اتاری اور میرے سر پر رکھ دی. شاباش میرے خلیفہ اب مجھے اطمنان ہوگیا. تم نے

میری فکر دور کردی. مجھے عبادات سے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی. اور نا ہی مجھے کوئی اعتراض ہے. بس حقوق العباد سے مجھے چڑ ہوتی ہے اور یہی میرے راستے کا سب سے بڑا “پتھر” ہے. مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ان فضول حقوق سے تم کوسوں دور ہو. اتنے میں فیروزخان ملائی والی چائے لےکر آگیا. ش-ی-ط-ا-ن نے چائے پی اور کہنے لگا. بےفکر رہو ہماری باتیں فیروزخان نے نہیں سنی ہیں. یہ کمبخت ہماری برادری کا نہیں ہے. لیکن تم کوشش کرتے رہنا اسے اپنی برادری میں شامل کرنے کی. اچھا میں چلتا ہوں. کل آؤں گا. تمہیں اپنے دوسرے خلفاء سے بھی ملوانا ہے. بڑی محبت سے ش-ی-ط-ا-ن مرشد کو گلے لگاکر رخصت کیا اور حساب چیک کرنے بیٹھ گیا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی وناصر ہو. آمین

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights