بی کیونیوز! سلطان محمودغزنوی نےس-و-م-ن-ا-ت کام-ن-د-رمیں جب (بادشاہ بت) س-و-م-نا-ت کےبت کوتوڑناچاہا تواس دورکےدانشورں نےانکوکیامشورہ دیا؟ اورسلطان نےکس پرعمل کیا؟ س-و-من-ات کا مندر اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان کے سب راجے اس کے لیے جاگیریں وقف کرتے، اپنی بیٹیوں کو خدمت کے لیے وقف کرتے. جوکہ ساری عمر کنواری رہتیں اور انہیں داسیاں کہا جاتا، ہر وقت 2000 برہمن پ-و-ج-ا پاٹ کرنے کے لیے حاضر ہوتے اور 500 گانے
بجانے خوبصورت عورتیں اور30 قوال ملازم تھے. س-ومن–ا-ت کے بت کی چھت 56 ستونوں پہ قائم تھی، وہاں مصنوعی یا سورج کی روشنی کا بندوبست بالکل بھی نہیں تھا. بلکہ ہال کے قندیلوں میں جڑے اعلیٰ درجے کے جواہرات روشنی مہیا کرتے تھے. ﷲ کے دلاور سلطان محمود غزنوی بت شکن سونے و چاندی کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو روندنے کے بعد بادشاہ بت کے سامنے جا کھڑے ہوئے، یہ بت 6 فٹ زمین کے اندر اور 9 فٹ زمین سے بلند تھا اسی دوران شہر کے معزز سمجھے جانے والے نے منہ مانگی مال و دولت کی پیش کش کی کہ س-ومن-ا-ت کے بادشاہ بت کو کچھ نا کہیں، تو سلطان محمود غزنوی کے دیسی دانشوروں نے مشورہ دیا کہ پتھر کو توڑنے کا کیا فائدہ، جبکہ مال و دولت مسلمانوں کے کام آئے گا. (یہی کنویں میں مینڈک والی سوچ ہمارے آجکل کے حکمرانوں کی بے کہ کیا فائدہ ہم اپنی
معیشت مضبوط کرتے ہیں.) سلطان محمود غزنوی نے دیسی دانشوروں کی بات سُن کر کہا کہ اگر میں نے تمھاری بات مان لی تو دنیا مجھے بت فروش کہے گی جبکہ میری چاہت دنیا و آخرت میں مجھے محمود بُ-ت شکن کے نام سے پکارا جائے، یہ کہتے ہی محمود بُ-ت شکن کی توحیدی غیرت جوش میں آئی، اور ہاتھ میں پکڑا ہوا، گرز س-وم-نا-ت کے دے مارا، اس کا منہ ٹوٹ کر دور جا گرا، پھر سلطان کے حکم پہ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے، تو اس کے پیٹ سے اس قدر بیش بہا قیمتی ہیرے، جواہرات اور موتی نکلے کہ جو ہندو معززین اورراجوں کی پیش کردہ رقم سے 100 گنا زیادہ تھے. اسی لئے ک-ا-ف-ر مورخین سلطان کو ڈاکو کہتے ہیں. جبکہ اسلام اسے مال غ–ن-ی-م-ت کہتا ہے اور آج بھی ک-ا-ف-ر-و–ں کی اولادیں سلطان پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں. اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
Leave a Comment
You must be <a href="https://blowingquotes.com/wp-login.php?redirect_to=https%3A%2F%2Fblowingquotes.com%2Farchives%2F8857">logged in</a> to post a comment.