بی کیونیوز! قرآن مجید میں واللہ خیرالرازقین کئی جگہ آیا ہے، عربی زبان میں ’’خیر‘‘ کبھی تفضیل کے لیے ہوتا ہے تو کبھی مبالغہ کے لیے، اردو میں جب ہم سب سے اچھا اور سب سے بہتر کہتے ہیں تو صرف تفضیل مراد ہوتی ہے، اور جب بہترین کہتے ہیں، تو تفضیل بھی مراد ہوسکتی ہے اور مبالغہ بھی مقصود ہوسکتا ہے۔ اس لیے خیرالرازقین کا ترجمہ بہترین رازق کرنا چاہئے نہ کہ
سب سے بہتر رازق۔ 1. ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کے قیام اور اس کے د-ف-ن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔‘‘ (ھود:6) 2.’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق نہیں اُٹھائے پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘(العنکبوت:20) 3.’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ق-ت-ل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو ق-ت-ل کرنا بہت بڑا گ-ن-ا-ہ ہے۔(الاسراء:31) 4. ’’فرما دیں کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا کون ہے جو تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو م-ر-دہ سے اور م-رد-ہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو ہر کام کی
تدبیر کرتا ہے؟ وہ فوراً کہیں گے ’’ اللہ‘‘ تو فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟ ‘‘(یونس:۳۱) 5. ’’تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض ب-ت ہیں اور تم جھوٹ گھڑ رہے ہو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو۔ تم اسی کی طرف پلٹ کرجانے والے ہو۔‘‘ (العنکبوت: 17) 6. ’’اور اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دینے کے مالک ہیں اورنہ وہ اس کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘(النحل:73) 7. ’’اے لوگو !تم پرجو اللہ کے انعامات ہیں انہیں یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں آخر تم کہاں سے
دھوکا کھا رہے ہو۔‘‘ (فاطر:۳) 8. ’’میں اُن سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ ‘‘ (الذاریات:58 ,57، :51) جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے ک-ف-ر کرتے ہیں ان کے لئے سخت ع-ذ-ا-ب ہے اور اللہ تعالٰی غالب ہے، بدلہ لینے والا ۔[سورة آل عمران 3 آیت: ,4] یہ ایک عام مشاہدہ کی بات ہے کہ آسمانوں اور زمین، سمندر میں رزق، جانوروں کی خوراک، نباتات، معدنیات وغیرہ کی شکل میں دستیاب ہے. ان کو پیدا کرنے والا صرف الله ہے اب اگر کوئی انسان اس رزق کو اپنی کوشش اور محنت سے حاصل کرتا ہے اور دوسرے انسانوں کو مہیا کرتا ہے، مثال کہ طور پر کسان زمین سے فصل حاصل کرتا ہے، مچھیرے دریا، سمندر سے مچھلیاں پکڑتے ہیں اور دوسروں کو مہیا کرتے ہیں تو وہ مجازی طور پر
رزاق کہلا سکتے ہیں. مگر اصل رزاق تو الله ہے جو فصل کو بیج سے پیدا کرتا ہے، مچھلیوں کو پیدا الله کرتا ہے تمام رزق جو ملتا ہے. اس کا خالق الله ہے، وہی بڑا رزاق ہے. حدیث میں کہا گیا ہے کہ کسی بندے کے صدقہ دینے سے اس کے مال میں کمی نہیں آتی ہے، “ما نقص مال عبد من صدقۃ۔” گویا جو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ اس کا بدلہ دنیا میں دیتا رہتا ہے، اور اس کے مال میں انفاق کی وجہ سے کمی نہیں ہونے دیتا، اور پھر آخرت میں تو انفاق کا بدلہ ملے گا جس کا وعدہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ تو ہمیشہ اپنے مال میں سے صدقہ خیرات کرتے رہیں اور اللہ کو قرض دیتے رہیں۔ یہ وظیفہ بہت طاقت ور ہے اور یہ ان عام تلاوت وظائف میں سے ایک نہیں ہے جسے آپ جانتے اور مشق کرتے ہیں۔ یہ بالکل مختلف وظیفہ ہے جو سیدھے قرآن و سنت کے اصولوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب تک ہم قرآن کے اصولوں پر قائم رہیں گے، ہم اللہ کی رحمتوں کو راغب کریں گے۔ اول وآخر تین اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو. آمین