درود شریف پڑھنے کے اہم مواقع

بی کیونیوز! ۱) نبی اکرم ﷺ کا اسم مبارک سنتے، پڑھتے یا لکھتے وقت درود شریف پڑھنا چاہئے جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ صرف (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی کہا جا سکتا ہے۔ ۲) آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے آغاز کرے۔ پھر تشہد میں اللہ تعالیٰ کے نبی پر درود بھیجے، اور اس کے بعد دعا مانگے۔ (ترمذی) نماز کے آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد

درود شریف پڑھنا واجب ہے یا سنت مؤکدہ۔ اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہیں۔البتہ ہمیں ہر نماز کے آخری تشہد میں خواہ نماز فرض ہو یا نفل درود شریف پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ ۳) اذان سننے کے بعددعا مانگنے سے پہلے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مؤذن کی اذان سنو تو وہی کلمات دہراؤ جو مؤذن کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ مجھ پر درود پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔  پھر اذان کے بعد کی دعا (اللّٰہُمَّ رَبَّ ہذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ۔۔۔) پڑھو۔ (مسلم) ۴) جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (حاکم وبیہقی) ۵) کوئی بھی دعا مانگنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد درود شریف پڑھیں: ایک شخص (مسجد میں ) آیا، نماز پڑھی اور نماز سے

فراغت کے بعد دعا کرنے لگا۔ یا اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے شخص! تونے دعا مانگنے میں جلدی کی۔ جب نماز پڑھو اور دعا کے لئے بیٹھو تو پہلے حمد وثنا پڑھو، پھر مجھ پر درود بھیجو، پھر اپنے لئے دعا کرو ۔ (ترمذی) ۶) جب بھی موقع ملے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری ق-ب-ر کو میلہ نہ بناؤ اور نہ ہی اپنے گھر کو ق-ب-ر-س-ت-ا-ن بناؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ مسند احمد بلند آواز کے ساتھ اجتماعی سلام پڑھنے کا حکم: شریعت اسلامیہ میں حضور اکرم ﷺ پر درود وسلام پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ درودو سلام پڑھنا ایک ذکر ہے، ذکر اگرچہ بلند آواز سے بھی چند شرائط کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں اصل ذکر وہ ہے جو آہستہ آواز میں کیا جائے۔ دنیا کے کونے کونے سے

ہمیں حضور اکرمﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنا چاہئے۔ آپﷺ کی ق-ب-ر اطہر پر جاکر آپ ﷺکو سلام پیش کرنا چاہئے، جس کی خاص فضیلتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ کسی دوسری جگہ سے بھی ہم آپ ﷺ کو سلام بھیج سکتے ہیں، جیساکہ ہم نماز کے ہر قاعدہ میں آپ ﷺ کو سلام بھیجتے ہیں، لیکن نماز کے قاعدہ میں السلام علیک ایہا النبی کہنے کے وقت یہ عقیدہ نہیں رکھا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ ہمارے سامنے ہیں اور ہم حضور اکرم ﷺ کو حاضر وناظر جانتے ہوئے درود وسلام پڑھ رہے ہیں۔ بلکہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں درود وسلام کے یہ کلمات پڑھے جاتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کے قول وفعل یا صحابۂ کرام کے قول وعمل سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ نماز میں درود وسلام پڑھنے کے وقت یہ عقیدہ رکھا جائے کہ حضور اکرم ﷺ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس نوعیت کا عقیدہ رکھنا قرآن وحدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مذکورہ بالا عقیدہ کے بغیر

درود وسلام کے یہ کلمات نماز کے علاوہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وقت کو مخصوص کرکے درود وسلام پڑھنا یا اجتماعی طور پر درود وسلام پڑھنا نہ حضور اکرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا اورنہ خلفاء راشدین اور صحابۂ کرام کے دور میں تھا اور نہ خیر القرون میں کوئی شخص اس عمل سے واقف تھا اور نہ چاروں ائمہ میں سے کسی ایک امام نے یہ عمل کیابلکہ سات سو نوے ہجری تک کسی بھی مقام پر یہ بدعت رائج نہیں تھی۔اس کی ابتداء ۷۹۱ ہجری میں مصر میں ہوئی۔ نبی اکرمﷺ کو ہر جگہ حاضر وناظر مان کر السلام علیک یا رسول اللہ کہنا جائز نہیں ہے، البتہ اس عقیدہ کے بغیر ان الفاظ کے کہنے کی گنجائش ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ہمارے بعض بھائی، جو بلند آواز کے ساتھ سلام پڑھنے یا اجتماعی طور پر کھڑے ہوکر سلام پڑھنے کے عمل کو بہت اہتمام سے کرتے ہیں، اپنے عمل کو قرآن وحدیث میں تلاش کرنے کی کوشش

ضرور کرتے ہیں، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت پیش کرنا صرف اپنی ذات کو مطمئن کرنے کے مترادف ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بلند آواز سے اجتماعی طور پر سلام پڑھنے کا ایک واقعہ بھی کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ اور اس عقیدہ کے ساتھ سلام پڑھنا کہ حضور اکرم ﷺ اس مجلس میں بنفس نفیس تشریف فرما ہیں، قرآن وحدیث کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے

Add Comment

Leave a Comment