جگرگوشہء رسول حضرت امام حسین ؑ نے اپنے ساتھیوں کو ک-ر-ب-ل-ا کے مقام پر ہی خیمے لگانے کا حکم کیوں دیا ؟

جگرگوشہء رسول حضرت امام حسین ؑ نے اپنے ساتھیوں کو کربلا کے مقام پر ہی خیمے لگانے کا حکم کیوں دیا ؟

بی کیونیوز! سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہ-ا-د-ت چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جوہر شہادت کا ظہورِ تام تھی اس لیے اسے شہرت بھی اسی مقام کی نسبت سے حاصل ہوئی۔ کائنات میں کسی بھی شخص کی ش-ہ-ا-د-ت کا چرچا اس کی ش-ہ-ا-د-ت سے پہلے نہیں ہوا جس طرح کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ش-ہ-ا-د-ت کو حاصل ہوا۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد قائم ہونے والے دور حکومت کے بارے میں فرمایا۔ (بہیقی، السنن الکبریٰ، 5 : 47، رقم : 1855)’’میری امت میں خلافت تیس برس تک رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق خلافت تیس برس رہی۔ یہ زمانہ عہد خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ عہد خلافتِ راشدہ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اعلان خلافت کے ساتھ ہی ملک شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم نہ کیا۔ اس پر امت مسلمہ متفق رہی ہے کہ خلافت بہرطور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا۔ آپ ہی خلیفہ برحق اور خلیفہ راشد تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جداگانہ اعلان حکومت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی

کشمکش کا آغاز ہوگیا جس کے نتیجے میں ج-ن-گ جمل اور ج-ن-گ صفین جیسے چھوٹے بڑے معرکے ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا نوجوان ی-ز-ی-د بن معاویہ تخت نشین ہوا اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ ک-ر-ب-ل-ا پیش آیا۔حضرت امیر م-ع-او-یہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ی-ز-ید- تخت نشین ہوا۔ اس کے لئے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے ی-ز-ی-د کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں ی-ز-ید- نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ’’حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو۔ (تاریخ، الطبری 113) ولید بن عقبہ رحمدل اور خاندان نبوت کی تعظیم و توقیر کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اس حکم کی تعمیل پر گھبراہٹ محسوس کی اور اپنے نائب مروان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ مروان سنگدل اور سخت انسان تھا۔ اس نے کہا میرے خیال میں تم ان حضرات کو اسی وقت بلا بھیجو اور انہیں بیعت کرنے کیلئے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ انکار کی صورت میں تینوں کا سر ق-ل-م کر دو۔ (ابن اثیر، 4 – 15، البدایہ والنھایہ، 8 : 1417) سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کا سامان کر کے ولید کے پاس پہنچے۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی اور

پھر ی-ز-ید- کی بیعت کیلئے کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تعزیت کے بعد فرمایا : ’’میرے جیسا بندہ اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے اگر آپ باہر نکل کر عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی بیعت کی دعوت دیں تو یہ الگ بات ہے‘‘۔ ولید جو کہ ناپسند آدمی تھا اس نے کہا اچھا! آپ تشریف لے جائیں، اس پر مروان نے ولید سے کہا اگر اس وقت تم نے ان کو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی ان پر قابو نہ پاسکوگے تاوقتیکہ بہت سے لوگ ق-ت-ل ہوجائیں ان کو -ق-ی-د کرلو، اگر یہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کا سر ق-ل-م کر دو۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ’’ابن الزرقا! تو مجھے ق-ت-ل کرے گا؟ خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے‘‘۔ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے آئے۔ (ابن اثیر، 4 : 15 – 16) بعد ازاں اہل کوفہ نے باہم مشاورت سے

امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے امام عالی مقام کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔ چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم صمیم کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے 8 ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں صفاح کے مقام پر عرب کے مشہور شاعر فرذدق سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی۔ وہ کوفہ سے آ رہا تھا۔ فرذدق نے آپ رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے اور آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے

آپ طلبگار ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا : ’’لوگوں کے دل تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں مگر ان کی ت-ل-و-ار-ی-ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔‘‘ فرزدق سے ملاقات کے بعد قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ کوفے کے حالات سے بے خبر کوفہ کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہوجاتے۔ جب قافلہ حسینیہ رضی اللہ عنہ ’’ثعلمیہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی ش-ہ-ا-د-ت کی خبر ملی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب آپ رضی اللہ عنہ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو حُر بن ی-ز-ی-د جو کہ حکومت ی-ز-ی-د کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا

ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد کا حکم دیا کہ آپ کو لے کر اس کے پاس پہنچوں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ 2 محرم الحرام 61 ہجری بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ حر نے آپ کے مقابل خیمے نصب کر لئے۔ حر کے دل میں اگرچہ اہل بیت نبوت کی عظمت تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی ادا کیں تھیں مگر وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھا۔ جس مقام پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ خیمہ زن ہوئے اس دشت و بیابان کی اداس و مغموم فضا کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس مقام کا نام کہاں ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ کو ’’ک-ر-ب-ل-ا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس

یہیں خیمے لگا لو، یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔ سرزمین ک-ر-ب-ل-ا پہنچتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آ رہے تھے جو انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے تھے کہ میرا بیٹا، میرا حسین سرزمین طف (ک-ر-بل-ا) میں ش-ہ-ی-د کر دیا جائے گا۔ اس لئے جب آپ کو علم ہوا کہ یہی سرزمین ک-ر-ب-ل-ا ہے تو آپ نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس طرح قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ غریب الوطنی کے عالم میں ک-ر-ب-ل-ا کے میدان میں خیمہ زن ہوا۔ دوسری طرف ی-ز-ی-دی- حکومت ان نفوس قدسیہ پر ق-ی-ام-ت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی چنانچہ 3 محرم الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے کوفہ سے ک-ر-ب-ل-ا پہنچا۔ عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس

قاصد بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ اہل کوفہ نے مجھے لکھا تھا کہ ان کے پاس آؤں۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں‘‘۔ جب ابن سعد کو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری یہ تمنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی طرح مجھے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف ج-ن-گ سے بچا لے چنانچہ اس نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی ان سے بیزاری پر واپس مکہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابن زیاد نے جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ساتھی ی-ز-ی-د- بن معاویہ کی بیعت کر لیں۔ جب وہ بیعت کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ اس پر عمر بن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے آدمیوں نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے

قافلے پر پانی بند کر دیا۔ 9 محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ ج-ن-گ کریں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ’’ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں۔ اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ، 8 / 175) ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی۔رفقاء سے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب ابن سعد کے

دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا۔ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ’ میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی ق-ت-ل کے طالب ہیں جب مجھے ق-ت-ل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی

جانیں قربان کر دیں گے، ہم اپنی گردنوں، پیشانیوں، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے۔ جب ہم ق-ت-ل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ، 8 / 176 – 177) آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے آپ رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کئے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔ (البدایہ والنہایہ، 8 / 177)، (ابن اثیر، 4 / 59) 10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خ-و-ن آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے ی-ز-ید-ی ف-وج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ی-ز-ی-دی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار

شمع امامت پر قربان ہونے لگے۔ س وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے، ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو ش-ہ-ی-د ہونا ہی ہے اگر تو بھی ش-ہ-ی-د ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کے لئے زندہ رہنا ہے‘‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدان ک-ر-ب-لا میں اترے۔ مقابلے میں

آپ رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل ج-ہ-ن-م کرتے رہے۔ پورے ی-ز-یدی ل-ش-ک-ر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف ت-ل-و-ا-ر لے کر نکلتا یزیدی ل-ش-ک-ر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔ اسی معرکہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی، آپ رضی اللہ عنہ نے پانی کے لئے دریائے فرات کا رخ کیا مگر د-ش-م-ن سخت مزاحمت کرنے لگا، اچانک ایک ت-ی-ر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ت-ی-ر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خ-و-ن سے بھر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا ’الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے۔‘‘ (الطبری، 6 / 33)

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدان ک-ر-ب-ل-ا میں تنہا د-ش-م-ن کا مقابلہ کرتے رہے اور -د-ش-من-وں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے ق-ت-ل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کا -ق-ت-ل- کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ’’تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے ق-ت-ل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو؟ واﷲ! میرے بعد کسی بندے کے ق-ت-ل پر اﷲ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے ق-ت-ل پر۔ (ابن اثیر، 4 / 78) ش-مر لعین کے اکسانے پر یزیدی ل-ش-کر آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر ت-ل-و-ا-ر ماری جس سے

آپ رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے۔ اس پر سب ح-م-ل-ہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو -ی-ز-ہ مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ گر پڑے۔ سنان نے سواری سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہ کا س-ر تن سے جدا کر کے خ-و-نی ی-ز-ی-د کے حوالے کر دیا۔ (البدایہ والنہایہ، 8 / 188) یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ک-ر-ب-ل-ا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے ق-ربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر سر ت-ن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور ق-ربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ اس سانحہ کو -ق-ید زمین و مکاں نہیں اک درس دائمی ہے ش-ہ-ا-دت حسین (رضی اللہ عنہ) کی یہ رنگ وہ نہیں جو

مٹانے سے مٹ سکے لکھی گئی ہے خ-و-ن سے امامت حسین (رضی اللہ عنہ) کی آج جہاں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان، دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز ح-ش-ر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں۔

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights